تحریر : عاکف غنی ایک وقت تھا جب پاکستان میں صرف ایک ٹیلی وژن چینل ہوا کرتا تھا،اخبارات بھی محدود تھے ،ٹی وی ہو یا اخبار، معیار کابہت خیال رکھا جاتا تھا۔ زبان و بیان ہو یا فنی مہارت کا معاملہ ،ان سب چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ خبر کی شہہ سرخی ہو یا کالم ، کوئی مضمون ہو یا اداریہ ،ایک ایک سطر کا خیال رکھا جاتا تھا۔ پی ٹی وی ہو یا اخبار، یہاں چند مخصوص لوگ ہی نظر آتے تھے اس کی وجہ شائد یہی تھی کہ معیار کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ،ٹی وی اور اخبار میں کام کرنے والے ہاتھ بھی کم ہی آتے تھے۔ بعد ازاں ٹی وی چیلنز کی بھرمار ہوئی، اخبارات ،گلی گلی سے شائع ہونے لگے اور معیار کا بتدریج خاتمہ ہوتا چلا گیا،رہی سہی کسر ویب سائٹس اور سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا،ان دونوں نے صحافیوں کی کثیر تعداد پیداکی ہے ،فیس بک نے تو صحافی، شاعر اور دانشوروں کی بھی لائین لگا دی ہے۔
ٹی وی،اخبار اور ویب سائٹس کی پاکستان میں تو بہت بھر مار ہے ہی، اس کے اثرات پردیس میں میں پہنچ گئے ہیں۔ معدودے چند ٹی وی چینلز ،اخبارات اور ویب سائٹس جو اپنے معیار کا خیال رکھے ہوئے ہیں، کے علاوہ کچھ چینلز، اخبارات اور ویب سائٹس ایسے بھی ہیں جن کا مقصد ان کے مالکان کی ذاتی تشہیر،پی آر اورمخصوص عناصر کی خوشامد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ان چینلز، اخبارات اور ویب سائٹس کے مالکان کی خبروں میں پہلی خبران کے مالک کے متعلق ہوتی ہے اور باقی خبریں بھی وہ جن کا تعلق انہی سے ہوتا ہے اور ان کے نمائندے بھی من پسند رکھے جاتے ہیں جو ان کی یا ان جیسے ان کے متعلقین کی خوشامد میں لگے رہیں۔
Journalist
وطن سے دور ،یورپ ،امریکہ یا مشرقِ وسطی جہاں بھی دیکھیں ٹی وی ،اخبار اور ویب سائٹس کے نمائندے تو آپ کو نظر آئیں گے ہی، اب کیمرا مین، سوشل میڈیا اور موبائل سے تصاویر بنانے والے کئی نام نہاد صحافی بھی آپ کونظر آئیں گے۔ کئی پروگرامز تو ایسے ہوتے ہیں جہاں پرگرام سے متعلقہ لوگ کم اور صحافی زیادہ نظر آئیں گے۔ وطن سے دور، پردیس میں ایسے ایسے بھی صحافی پائے جاتے ہیں جنہیں صحافت کی ابجد تو کیا دو چار فقرے بھی لکھنے نہیں آتے لیکن چونکہ وہ چند مخصوص لوگوں کے منظورِ نظر ہوتے ہیں اس لئے ہر جگہ نظر آئیں گے۔کچھ صحافی ویب سائٹس سے منسلک ہوتے ہیں ان کے مالکان کا مقصد پیسے کمانا ہوتا ہے سو انہیں ایسے صحافیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو خبر کے عوض کچھ پیسے کما کر نہ صرف اپنی جیب گرم کریں بلکہ مالکان کا پیٹ بھی بھریں۔دو چار سطریں لکھنے والا خوِد کو ایک بڑا کالم نگار سمجھنے لگ جاتا ہے،کسی ٹی وی جرنلسٹ سے ذاتی تعلقات کی بنا پر کسی ٹی وی پہ تھوڑا بہت اظہار کا موقع مل جائے تو خوِ کو دانشور ماننے لگتا ہے۔
سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کا کمال یہ ہے کہ یہ ایسے ایسے افراد کولیڈر اور سیاستدان بنا کر پیش کردیتے ہیں جنہیں ان کے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا، نامور شاعراورادیب بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ایسے ایسے لوگوں کو نامور شاعر اور ادیب بنا کر پیش کیا جاتا ہے جنہیںدوسروں کے اشعار بھی ٹھیک طرح سے پڑھنا نہ آتے ہوں، جب کچھ نہ بن آئے تو ادب دوست بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔جنہیں چند فقرے لکھنا نہ آتے ہوں انہیں نامورکالم نگار ،اسی طرح فیشن ڈیزائنر،سٹار،اور نہ جانے کیا کیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔پیسہ،ضیافت اور ذاتی تعلق اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
Womens Journalist
ادب ،صحافت، فن کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خوِ نمائی کے جراثیم سرایت نہ کر چکے ہوں، مستورات بھی اس سلسلے میں کسی سے کم نہیں اور میڈیا والے تو ویسے بھی مستورات کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ صحافت میں خوِ نمائی کے جراثیم نے نہ صرف صحافت کو آلودہ کیا ہے بلکہ بعض ایسے عناصر کو اونچی اڑان عطا کی جنہیں پر تولنا تک نہیں آتا تھااور بعض اوقات بڑے بڑے شاہینوں کوکاگ بنا کے رکھ دیا۔ شعرو ادب ہو یا صحافت ان میں اپنے اپنے قبیلے کے تحفظ اور فروغ کے لئے ادارے یا تنظیمیں بنائی جاتی ہیں۔
ان تنظیمات کا مقصد اپنے اپنے اراکین کا تحفظ ،انہیں ساتھ لے کر چلنا اور ان کی پروموشن ہوتا ہے ،مگر افسوس کہ اس معاملے میں بھی پردیس میں ذاتی نمود و نمائش اور خوِ نمائی کا پہلو نمایاں ہے، جو بھی ادارہ یا تنظیم بنتے ہے اس کا مقصد صدارت، جنرل سیکرٹری شپ اور اپنی اپنی پروموشن ہوتا ہے۔پریس کلب، جنرلسٹ کونسل، ادبی فورم یا اس قسم کی مختلف تنظیمیں بنائی جاتی ہیں جن کا بظاہر مقصد کچھ اور ہوتا ہے مگر حقیت وہی کہ صدر بنو ، اپنے تعلقات بناؤ،خوِد کو نمایاں رکھو ،اپنے اعزاز میں پروگرام کرواؤ اور عام اراکین کو بھول جاؤ چاہے وہ کتنا ہی اچھا لکھنے والے کیوں نہ ہوں۔
Political Parties
خوِد نمائی کے شوق میں یہاں لوگ سیاسی پارٹیوں کو جنم دیتے ہیں، جو اپنی اپنی چوہدراہٹوں کے شوق میں، ایک ایک پارٹی میں کئی کئی گروپ بنائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔اسی طرح ادب و صحافت میں خوِ نمائی کے شوق میں کئی ادارے اور تنظیمیں وجود میں آ جاتی ہیں ،ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے ، اور تو اور مسجد کمیٹیوں کے نام پر چوہدراہٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
سیاست ،صحافت اور ادب و فن سے ہٹ کر کئی افراد، ذات، برادری، قبیلے اور علاقے کی بنیاد پر خوِد کو نمایاں کرنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔کوئی انسانی حقوق تو کوئی ورلڈ ڈیموکریٹک فورم کا سربراہ بنا نظر آتاہے کوئی جٹ گروپ تو کوئی گجر فورم بنائے بیٹھا ہے۔
صحافت کے علمبرداروں کو چاہیے کہ حقیقی صحافیوں کو اکٹھا کر کے صحافت کی سمت درست کریں،خوِنمائی کے خول سے نکلیں ،آپ کا کام بولنا چاہیے اور ما شا ء اللہ ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جن کا کام بولتا ہے ،بس انہیں دوسروں کو، وہ جو صحیح لکھنے والے ہیں ساتھ لے کر چلنے کا فن آنا چاہیے۔شعر و ادب والوں کو چاہیے کہ صحیح لکھنے والوں کی قدر کریں اور جو جو تنظیمات بنائی ہوئی ہیں ان کے مقاصد پر عمل کریں۔اسی طرح خوِدنمائی کے خول میں جو کوئی بھی قید ہے اس سے خوِد کو رہائی دلوائے اور اپنے کام سے اپنا آپ منوائے۔