اصولی صحافت کا ایک دیا اور بجھ گیا

Journalism

Journalism

تحریر : عباس ملک

سینئر صحافی آئین و جمہور کی سربلندی کے داعی چوہدری رحمت اللہ شمسی المعروف سی آر شمسی اللہ پاک کی رحمت میں چلے گئے۔صحافت کا چمکتا ستارہ، جمہوریت کے داعی، اصولی و نظریاتی صحافت کے راہبر، صحافت کا گوہر نایاب سہ آر شمسی کی وفات کا غم کبھی بھول نہیں سکتا ، موت سے صرف تین گھنٹے قبل انہوں نے سوشل میڈیا میں اپنی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے محسن داوڑ کا خصوصی انٹرویو لیا تھا اور کچھ لمحوں بعد خبر ملی کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ گئے اور ہم میں نہیں رہے، چند روز قبل شمسی صاحب سے ملاقات ہوئی ، بلکہ اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی ، ان سے بہت سیکھنے کا موقع ملا ، سی آر شمسی اصول پرست اور نظریات رکھنے والی شخصیت تھی ۔ صحافت کا ایک بہت بڑا باب بند ہو گیا۔اک دیا اور بجھا، سی آر شمسی بھی خاموش ہوئے ،زندگی پڑاؤ تو ہے مگر کچھ انسان ایسے جیتے ہیںکہ گہرے نقش یادیں چھوڑ جاتے ہیںاس لئے کہ وہ اپنے لئے نہیں’دوسروں کے لئے سانس لیتے ہیں،سماج میں رہتے ہیں۔شمسی صاحب نے زندگی بھر لکھا ‘بھر پور لکھا’ان کے لفظ محترم ٹھہرے۔ان کے بہت سے تعارف ہیں،جید صحافی تو تھے ہی مگر سماج کے پھولوں اورکانٹوں سے آشنا بھی تھے۔ہمارا ان سے رشتہ آزادی صحافت’کی جدوجہدسے تھا جس کیلئے وہ سوچتے ‘تڑپتے بھی تھے۔تنظیم سے دلی وابستگی تھی، وہ ہمارے وہ مشر تھے جوتنظیم کے آئین’فلسفے میں آشنا ہی نہیں اس کیلئے لڑتے ‘ کہڑتے بھی تھے۔جب بدقسمتی سے تنظیم بکھری توبہت دکھی ہوئے۔

منہاج برنا ، نثار عثمانی ، ناصر زیدی و دیگر کی قیادت میںملک بھر کے بڑوں کو اکھٹا کرنے میں پیش پیش تھے،وہ لیکن اس وقت بہت دکھی ہوتے جب بصیرت سے عاری خواہشیں رکاوٹ بنتیںمگر مایوس نہیں تھے، وہ کہتے تھے یہ تنظیم ہی صحافت اور صحافی کی چھتری ہے ،آج نہیں کل سب کو اس کے تلے پناہ لینی پڑیگی۔پتہ نہیں ان کی خواہش کب پوری ہوگی۔ آج صحافت کٹہرے اورصحافی خطرے میں ہے توسی آر شمسی صاحب بھی ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئے ہیںمگر پیچھے اپنے کردار کا روشن عکس چھوڑ گئے ہیں۔ صحافت میں سی آر شمسی اور ان کے جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کا نام ہمیشہ چمکتا رھے گا۔ جس کے نتائج آج آپ کو ھر شعبے میں نظر آ ر رہے ہیں، اسکے علاوہ ویج بورڈ میڈیا ٹاون اور دیگر میڈیا کے ٹاون کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔

یقین نہیں آتا کہ ایک مفکر اور معروف صحافی، جمہوریت، ترقی پسندی اوربائیں بازوکے نظریات رکھنے والے، بھٹو دور سے یونین لیڈر سنیئر صحافی سابق سیکرٹری پی ایف یو جے سی آر شمسی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ سی آر شمسی ایک ایسے صحافی تھے جنکی صحافتی حوالے سے ایسی نا قابل فراموش خدمات ہیں جن کے ذکر کے لیے کئی کتابیں کم پڑیں گی۔ مرحوم کی ساری زندگی کی جد و جہد صحافیوں کے حقوق کے لئے تھی۔ سی آر شمسی مرحوم نے ہمیشہ دبنگ انداز میں لکھااور بولا،یونیورسٹی کے وقت سے ان کی لکھی ہوئی تحریریں کئی کئی بار پڑھیںاور ان سے استفادہ حاصل کیا ۔ سی آر شمسی صاحب گزشتہ کئی ماہ سے معاشی پریشانیوں سے مجبور ہوکر یوٹیوب پر چلے گئے اور اس وجہ سے سخت پریشان تھے، اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اس بے رحم دنیا سے کوچ کر گئے ۔

میں نے جب بھی سی آر شمسی صاحب کو دیکھا تو انہیں ہمدرد اور شفیق انسان پایا ۔ وہ کبھی کسی کا برا نہیں سوچتے تھے ۔ ان کی زندگی کی عظمت اور صحافیوں کیلئے جدوجہد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حقوق کی جنگ میں کئی صوبتیں برداشت کیں اور ماریں بھی کھائیں۔ حکومتی رویوں کی تلخیوں کا سامنا بھی کیا مگر ہمت نہیں ہاری ۔ سی آر شمسی صاحب کی جدوجہد اور صحافیوں کے حقوق کے ان گنت تذکرے ہیں مگر ایک واقعہ میںسنا دیتا ہوں ۔ یہ بہت سال پہلے کی بات ہے کہ ایک وفاقی وزیر اور سی آر شمسی کے درمیان تلخی ہو گئی اور اس کے بعد وفاقی وزیر کے محافظ اور ڈرائیور نے مبینہ طور پر سی آر شمسی پر حملہ کر دیا جس سے نہ صرف سی آر شمسی شدید مضروب ہو گئے بلکہ ہاتھا پائی میں ایک دوسرے شخص کی انگلیاں بھی ٹوٹ گئیں۔تشدد کے نتیجے میں سی آر شمسی کے کان کا پردہ مجروح ہو گیا تھا۔ابتداء میں صحافیوں کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی میڈیکل رپورٹ جاری کی جائے اور وفاقی وزیر اور ان کے ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ لیکن بعد میں حکومت سے اس تنازع کے حل کے لیئے ہونے والے مذاکرات میں صحافیوں نے ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کو بھی مطالبات میں شامل کر لیا۔ صحافیوں کے مطابق یہ فیصلہ ذاتی مفاد کی جگہ اجتماعی مفاد کو ترجحی دینے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی اور وزیر محنت غلام سرور پریس گیلری آئے اور صحافیوں کو عید سے قبل ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لیئے لائحہ عمل تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی۔اس موقعہ پر غلام سرور خان نے صحافی پر تشدد کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔اس موقعہ پرمرحوم سی آر شمسی نے کہا تھاکہ وہ وزیر کو معاف کرتے ہیں،میرے دوسرے کان کا پردہ بھی پھاڑ دیں لیکن صحافیوں کی حالت پر رحم ضرور کھائیں، ہمارا مسئلہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ملکی قوانین کا نفاذ ہے۔مرحوم سنیئر صحافی سی آر شمسی کی صحافت مثالی صحافت کا درخشاں باب تھی ۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی ۔ سی آر شمسی اس سب بحران کے باوجود بھی تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے رہے ۔ وہ اپنے لیے نہیں اپنے جونیئرز کیلئے جدوجہد کر رہے تھے تاکہ کامیاب تحریک کے بعد میڈیا کا بحران ختم ہو اور آنے والے نوجوان صحافیوں کیلئے آسانیاں پیدا ہو سکیں۔

صحافت میں سی آر شمسی اور ان کے جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ جس کے نتائج آج آپ کو ہرشعبے میں نظر آ رھے ھیں اسکے علاوہ ویج بورڈ میڈیا ٹاون اور دیگر میڈیا کے ٹاون کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔سی آر شمسی صاحب مزاحمتی صحافت کا درخشاں ستارہ تھے جنہوں نے ہمیشہ صحافیوں اور کارکنوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ شمسی صاحب بے نظیربھٹو شہید کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور ایک ملنسار انسان اور مثبت کردار کے مالک تھے۔ارکان پارلیمنٹ نے سینئر صحافی سی آر شمسی کے انتقال پر اظہار افسوس اورتعزیت کرتے ہوئے ان کے ایصال ثواب کیلئے خصوصی دعا کی ،، وزیر اعظم پاکستان عمران خان ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے تعزیتی پیغام میں مرحوم سی آر شمسی کی صحافت کے شعبے میں خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ صحافت کے لئے مرحوم سی آر شمسی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی، قائد ایوان سینٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم اور قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے مرحوم کی وفات کو صحافت کیلئے بڑا نقصان قرار دیا۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے کہا کہ مرحوم کی شعبہ صحافت کی ترقی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے پیش کی جانے والی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،خلاء پر نہیں ہو سکے گا،چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ سی آر شمسی آزادی صحافت اور جمہوریت کیلئے جبکہ آمریت کی باقیات کے خلاف سی آر شمسی کی جدوجہد ناقابل فراموش تھی، وہ آزادی اظہارِ رائے کیلئے ہونے والی جدوجہد کے ایک ہیرو تھے، سی آر شمسی صحافت کا ایک ایسا تابندہ نام ہے جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑے گی اور آنے والی نسلیں سی آر شمسی کی جدوجہد سے سبق حاصل کرتی رہیں گی، پاکستان میں فیک نیوز کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی اگر تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں سی آر شمسی کا نام سرفہرست ہوگا، ان کا غیرمعمولی کردار اہل صحافت کو کبھی نہیں بھول سکتا، منہاج برنا، ابراہیم جلیس اور نثار عثمانی جیسی قدآور صحافتی شخصیات کے ساتھی، مایہ ناز صحافی سی آر شمسی کے انتقال کی خبر سن کر سخت صدمہ اور افسوس ہوا، آزادی صحافت اور جمہوریت کے لئے جبکہ آمریت کی باقیات کے خلاف ان کی جدوجہد ناقابل فراموش تھی، وہ آزادی اظہارِ رائے کے لئے ہونے والی جدوجہد کے ایک ہیرو تھے، سی آر شمسی صحافت کا ایک ایسا تابندہ نام ہے جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑے گی اور آنے والی نسلیں سی آر شمسی کی جدوجہد سے سبق حاصل کرتی رہیں گی۔ سی آر شمسی کا بھٹو خاندان سے نسلوں کی وفاں کا ایک سلسلہ تھا۔

انہوں نے شہید بے نظیر بھٹو کے ہمراہ بھی جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور اس کا بھرپور حق بھی ادا کیا، انہوں نے صدر زرداری کے دور میں پروپیگنڈے سے پاک غیرجانب دار صحافت کی، پاکستان میں فیک نیوز کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی اگر تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں سی آر شمسی کا نام سرفہرست ہوگا، ٹریڈ یونین کی سیاست میں سی آر شمسی کا غیرمعمولی کردار اہل صحافت کو کبھی نہیں بھول سکتا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرنے والے سی آر شمسی کی جدوجہد سے عبارت فعال زندگی کا حق ہے کہ ان کے کردار کو مثال بنا کر نوجوان صحافی ان کی پیروی کریں، صحافت اگر عجلت میں لکھا گیا ادب ہے تو سی آر شمسی اس ادب کا ایک روشن ستارہ تھے۔بلاول بھٹو زرداری نے اپنے تعزیتی پیغام میں یہ بھی کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں میری ان سے آخری ملاقات ہوئی، وہ اس وقت صحافیوں پر ہوئے تشدد کے حوالے سے اپنا جرات مندانہ مقف پیش کررہے تھے، ان کی دنیا سے رخصتی میرے لئے کسی سانحے سے کم نہیں، سی آر شمسی کے انتقال پر میں ان کے لواحقین کے ساتھ ساتھ تمام صحافی برادری کے صبر کے لئے دعا گو ہوں اور رب کائنات سے دعا کرتا ہوں کہ خدا سی آر شمسی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے مرحوم کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور دعا کی کہ اللہ کریم اہلخانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سی آر شمسی مرحوم کی صحافت کے شعبے میں خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا،وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سی آر شمسی کے انتقال کا سن کر دلی غم ہوا۔

ایک انتہائی نفیس انسان تھے،مرحوم کی شعبہ صحافت اور آزادی صحافت کیلئے لازوال جدو جہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی،اے این پی کے سینٹر زاہد خان نے کہا کہ سی آر شمسی ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے،انہوں نے میڈیا ورکرز کے حقوق کی جدوجہد میں صف اول کا کردار ادا کیا،رحمان ملک نے کہا کہ سی آر شمسی ایک عظیم انسان تھے، انہوں نے صحافت کے لیے عظیم خدمات سرانجام دیں،ارکان پارلیمنٹ نے دعا کی کہ اللہ تعالی مرحوم کوجنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور انکے درجات بلند کرے، سید نیر حسین بخاری نے کہا سی آر شمسی کی صحافتی برادری کے لئے جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مرحوم نے میڈیا پر لگنے والی قدغن کی ہمیشہ شدید مخالفت اور تحریک میں سب سے آگے رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان زاہد خان نے سینئر صحافی سی آر شمسی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے۔ جنرل ضیا کی آمریت کے دور میں صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنی صحافتی ذمہ داریوں پر آنچ نہیں آنے دی۔مرحوم نے ہر دور میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، کبھی صحافتی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور قلم کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی آر شمسی آزادی صحافت کیلئے آخری دم تک کھڑے رہے اور میڈیا ورکرز کے حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش رہے۔صحافت کے میدان میں انکی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا بمشکل پورا ہوگا۔ اے این پی دکھ کی اس گھڑی میں انکے لواحقین کے ساتھ برابر شریک ہے۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ ۔ اپنے 32 سالہ صحافتی کیرئیر کے دوران میں نے انہیں بے مثال پایا ۔ سی آر شمسی صاحب کی وفات کی خبر میرے لئے ایک بہت بڑا ذاتی صدمہ ہے۔ اللہ کریم شمسی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور صحافتی برادری ، ان کے تمام چاہنے والوں سمیت اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے آمین

Abbas Malik

Abbas Malik

تحریر : عباس ملک