تحریر : قادر خان افغان پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا جہاں ریاست کے’ چوتھے ستون’ نے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے تو دوسری جانب مخالف حلقوں نے عدم برداشت کو بھی اپنایا ہے۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی میں غیر جانبداری کا عنصر کم نظر آنے لگا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ صحافت کرنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن صحافت پر سیاست کرنا ، مقدس پیشے کے شایان ِ شان بھی ہرگز نہیں ہے۔ کچھ عرصے سے دنیا بھر میں صحافیوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیائی ممالک میں تشدد کا عنصر خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے ۔ بظاہر تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کسی صحافی کو اُس کے اپنے ادارے کی ‘پالیسی ‘کے سبب نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چونکہ صحافی عوام کے درمیان اور پالیسی میکر پس پردہ ہوتا ہے اس لئے صحافی ہی کسی بھی ادارے کی پالیسی کی وجہ سے براہ راست نشانہ بنتا ہے۔متعدد معروف میڈیا گروپ کے کئی صحافیوں پر قاتلانہ حملے کئے جاچکے ہیں ، جبکہ اپنی پیشہ وارانہ فرائض کے درمیان کئی صحافی دہشت گردی کا نشانہ بھی بنے ہیں۔نام نہادصحافتی تنظیمیں اپنے کردار کے حوالے سے عضو معطل اور صرف حکومتی فنڈ کے حصول تک محدود ہیں ۔ ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی صحافیوں کی وجہ میڈیا کی مقبولیت کی وجہ سے اُن کے خلاف تنقید پر عدم برداشت کا ہونا ہے۔
بادی النظر اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا بھی ایک خطرناک فورم کی صورت میں سامنے ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا سے زیادہ خطرناک سوشل میڈیا بن چکا ہے جس پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ کسی بھی مسلک ، مذہب ، نسل ، لسانی فرقے وغیرہ کے خلاف جو چاہے ، جس طرح چاہے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتا ہے ۔ جذبات کی ہیجان خیزی میں سوشل میڈیا نے تمام میڈیا ونگز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔لیکن اس سوشلستان میںعملی تشدد کم نظر آتا ہے۔ تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غیر جانبدارانہ صحافت پاکستان میں انتہائی مشکل کام ہے ۔ عوام شائد یہ سمجھتے ہوں کہ صحافی کا قلم اتنا آزاد ہے کہ وہ جو چاہے ، جیسا چاہے لکھ دے ، کسی پگڑی اچھالے یا کسی کی عزت اُس کے لئے لفظوں کا کھیل ہے ۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ صحافی اپنے اپنے ادارے کی دی گئی پالیسی کی حدود میں ہی رہ کر کام کرتے ہیں ۔صحافت میں کئی شعبے ہیں جس سے وابستہ ہر صحافی کا عمل’ تیسری آنکھ’ سے مخفی نہیں ہے۔آج کا صحافی دراصل اپنے ادارے کی ایک پراڈکٹ بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صحافت میں سب سے مشکل کام غیر جانبدار صحافی بننا ہے ۔لیکن ان کی صحافت کا محور عموماََ ادارے کی پالیسی سے ہی جڑا ہوتا ہے ۔جو بعض اوقات صحافی کے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صحافی کا نام اگر لیں گے تو ابلاغ سے واقف قاری ، یا صحافی آنکھیں بند کرکے اس کی سیاسی یا ‘ریاستی وابستگی کے بارے میں خیال آرائی کرسکتا ہے۔تاہم زرد صحافت یا پالتو صحافیوں کے اس گروہ میں ابھی اتنا قحط الرجال نہیں پڑا کہ قلم کو ازار بند یا سر کھجانے کے لئے استعمال کرنے والے رہ گئے ہوں ۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی نہ کسی نظریئے کے تابع ہوتا ہے یا کسی نہ کسی نظریات سے قائل ہوتا ہے ۔ فطری طور پر اُس کی ہمدردیاں اور اُس کا رخ بھی اُسی جانب ہوتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صحافی اپنے انسانی جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوتا ہے ۔ وہ شخص کبھی صحافی کہلایا ہی نہیں جا سکتا جو حساس نہ ہو ، جس کے جذبات نہ ہو ، جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ مخالف اس کے نظریئے کا جواب دلیل سے دیتا ہے یا تشدد سے ۔ میڈیا ایک کاروبار کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ جس کے اپنے ان گنت اخراجات ہوتے ہیں۔ اسی لئے لفظوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ جس کے الفاظ جتنا اثر رکھتے ہونگے ، وہ اسی قدر برائے فروخت ہوگا ۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحافی کو خریدا جا سکتا ہے ۔ پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان میں ابھی ایسا قحط الرجال نہیں پڑا کہ ہر صحافی برائے فروخت ہو ۔ یہ ضرور ہے اُسے دشواریوںکا سامنا رہتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مجبوری اور ضرورت معاشی ہوتی ہے ۔ جسے ایمانداری سے حاصل کرنے کیلئے بعض اوقات اپنے اصولوں سے سمجھوتہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں اگر پاکستان کا کوئی صحافی اگر اپنی معاشی ضروریات کے لئے صرف ایک میڈیا ہائوس کی تنخواہ یا اعزازیہ پر انحصار کرتا ہے تو اُس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا۔
قلم کی جگہ نشتر سے بھی لکھا جاتا ہے جس کا ایک ایک لفظ تیر بن کر دل میں اتر جایا کرتا ہے، لیکن ہر شعبے کی طرح اس پیشہ میں بھی مسابقت ہے ، بدقسمتی سے صحافی کو سب سے پہلے اپنے ہی ادارے کے اس قبیل سے ٹکرائو ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ صحافی کا قلم ، قلم نہیں ریمورٹ کنٹرول ہے ، لہذا جیسا دبائیں گے ویسا ہی ری ایکشن کرے گا ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ میڈیا ہائوس کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ صحافی کیا چاہتا ہے ، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی ریٹنگ و سرکولیشن میں اضافہ کیوں نہیں ہورہا ۔ مسابقت دوڑ میں ہر ادارے میں گروپ بندیوں کا ہونا بھی ایک فطری امر ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان ، رب کائنات کے بنائے گئے قانون پر یکجا و متحد نہیں اور گروہوں میں بٹ گیا ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ انسان کے بنائے گئے قوانین میں بھی گروپ بندی کا شکار نہ ہو۔ یہی گروپ بندی دراصل صحافی کی تخلیقی سوچ کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
بعض میڈیا ہائوسز میں ایسے کئی صحافی ہیں جن کو خود نمائی او ر شہرت کے ساتھ مشہور شخصیات سے تعلقات بڑھانے کا فوبیا ہوتا ہے ۔ وہ اپنی صحافتی ذمے داریوں سے ہٹ کر سب سے پہلے اپنے ادارے میں اُن احباب کے خلاف کمر بستہ ہوجاتا ہے ۔جن سے وہ ازخود خائف رہتاہے۔ غیر جانبدار رہنے والا صحافی دراصل اپنے اصولوں کی وجہ سے بیرونی سے زیادہ اندرونی جنگ کرتا نظر آتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صحافت نہیں بلکہ سیاست کررہا ہو بلکہ گوریلا جنگ کررہا ہو۔سیاست سے صحافت میں آنے والے بیشتر ایسے صحافی ہیں جن کے تعلقات کی وسعت اُن صحافیوں سے زیادہ ہوتی ہے جو دفتر بیٹھ کر ای میل پر ملنے والی خبر کو فائل کرکے اپنے ذمے داریوں سے خود کو سبکدوش گردانتا ہے۔صحافیوں کا ریاستی عناصر ، سیاسی عناصر سمیت ہر گروہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن اسے بہت کم صحافی ہوتے ہیں جو آل راونڈر کہلائے جاتے ہیں ، صحافت میں مخصوص چال تک محدود رہنے والوں کی سوچ بھی محدود رہ جاتی ہے ۔ پُر تشدد احول میں رہ کر قلم سے تلوار کا کام لینا بھی ہر کسی کا دل گردہ نہیں ہے۔لیکن اس قسم کی صحافت میں اُس صحافی کے سب سے زیادہ مخالف اس کے اپنے ہی ہم قلم نکلتے ہیں۔ یہی مخالفین بیرونی متشدد عناصر کے لئے مخبری کا کام سر انجام دیتے ہیں اور چندزرد لفافوں ، بیرون ملک تفریحی دوروں، مراعات، اور پلاٹوں کے بدلے اپنے ہم پیشہ صحافی کو رگید ڈالتے ہیں ، جس کا نتیجہ تشدد سے ہوتا ہوا ، موت پر متنج ہوتا ہے۔
صحافت ،ریاست کا چوتھا ستون کہلایا جاتا ہے ، لہذا ریاست کی اس شطرنج کی بازی میں ہر مہرے کو اپنے’ شاہ ‘کیلئے قربانی بھی ضرور دینا ہوتی ہے ، بس فرق اتنا ہے کہ اُس کا وقت کب اور کس چال کے لئے آتا ہے۔ اگر وہ خود اس شطرنج کو کھیلنا چاہتا ہے تو پھر اسے اپنی چالوں کو بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہوتا ہے، کیونکہ مقابل فریق کو کمزور سمجھ لینا دراصل شکست کی پہلی نشانی ہے۔صحافیوں کو اس سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا رہے گا کیونکہ ان کے گرد اِن کی اپنی فصیلیں ( تنظیمیں )کمزور ہیں ۔اتحاد و اتفاق کے خوشنما پُرفریب نعروں میں چھپے مفادات کی اس سیج میں جو بھی ہو صحافی کو قند کے بجائے زہر کو چکھنا ہوتا ہے۔
زندہ قوم کے ساتھ زندہ رہنے والے ہی پائندہ باد رہتے ہیں ۔بدقسمتی سے وطن عزیز میں قلم کی قیمت انسانی جان سے بھی سستی ہے ۔ لیکن چند ایسے زندہ ضمیر اُس گروہ کے طرح اب بھی موجود ہیں جو نیکی اور بدی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جنھیں کوئی جتنا بھی روکنا چاہیے، نہیں روک سکتے ۔ قلم کے مزدور بھی اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔ ان کی راہ میں حائل ان گنت رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں لیکن لفظوں کے سوداگراپنا بویا بیچ کر ہی رہتے ہیں ۔ اب یہ اُس صحافی پر منحصر ہے کہ جیسی فصل بوئی ہے ویسی کاٹنی بھی تو ہے ۔ اس لئے ہر صحافی کو کھیت میں بیج ڈالتے وقت ضرور سوچ لینا چاہیے کہ فصل کیسے نکلے گی ؟لیکن اس سے پہلے زرخیز زمین کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہے،جذباتی وابستگیاں نقصان دیتی ہیں۔بعض اوقات یہی جذباتی وابستگیاں صحافی کو لفظوں کا سوداگر بنا دیتی ہیں۔