ہائے رے صحافت

Journalism

Journalism

تحریر : نجیم شاہ

میں ایک صحافی ہوں۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ میرے پاس پریس کارڈ ہے۔ جب میں نے صحافت کے صحرائے خارزار میں عملی طور پر قدم رکھا تو میرے پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ میں اسی زعم میں مبتلا تھا کہ اَب میں صحافی بن گیا ہوں۔ میرے اِرد گرد قلم فروشوں کی ٹولیاں جمع تھیں جو چند ٹکوں کی خاطر سیاست دانوں کے قصیدے لکھ کر اخبارات اُن کی دہلیز پر پہنچاتے اور اپنے ذاتی مفادات اُٹھاتے۔بعض ایسے بھی تھے جو پولیس کے ٹائوٹ تھے جنہوں نے ضلعی انتظامیہ کی خدمت کا بیڑہ اُٹھا رکھا تھا۔ ہر روز پولیس کی کارکردگی میں خبریں شائع کروا کر اُن سے داد وصول کرتے اور صبح و شام تھانے اور کچہریوں کے گرد منڈلاتے رہتے۔ جونہی کوئی شکار ہاتھ آتا انتظامیہ سے قلمی خدمت کے عوض اُن کے کام کروا کر چند ٹکے وصول کرتے اور گھر چلے جاتے۔ تب مجھے لگا کہ شاید یہی اصل صحافت ہے اور یہ لفافہ صحافی، بکائو صحافی، بلیک میلر یا گٹر جرنلسٹ کی اصلاحات تو اُن لوگوں کی سازش ہے جو ہمارے صحافیانہ پَن سے جلتے ہیں۔ پہلی دفعہ کا ذکر ہے کہ گھر والوں نے گوشت لانے کیلئے مجھے بازار بھیج دیا۔

قصائی کی دُکان پر پہنچا اُسے گوشت دینے کی ہدایت کی اور اپنا صحافی ہونے کا بتایا تاکہ وہ سستا اور اچھا گوشت دے۔ کارڈ دیکھ کر اُس نے اپنا چھُرا سائیڈ پر رکھا اور جیب سے ایک کارڈ نکال کر میرے سامنے کر دیا۔ میں ہکا بکا ہو کر رہ گیا کہ وہ کسی دوبدو اخبار کا نامہ نگار تھا۔ اگلے روز میں بال کٹوانے کیلئے حجام کی دُکان پر پہنچا اور بڑے ہی رعب سے اُسے بتایا کہ میں صحافی ہوں بال ذرا دھیان سے کاٹنا۔ یہ سُن کر اُس نے پہلے تو خوب قہقہہ لگایا اور پھر قینچی رکھ کر دراز سے روزنامہ ”افراتفری” کا کارڈ نکال کر مجھے تھما دیا، جس میں موصوف نمائندہ خصوصی تھے۔ میں چپ ہو گیا اور اپنی قدر و قیمت سمجھ آ گئی لیکن پھر بھی سوچا کہ ہو سکتا ہے حجام کوئی سقراط قسم کی چیز ہو اس لئے نمائندہ خصوصی بن گیا، یہ رعب کہیں اور ڈالتے ہیں۔ دوسرے دِن موچی کے پاس گیا، اُس کو جوتے پالش کرنے کیلئے دیئے اور حسبِ سابق رعب ڈالنے کیلئے اپنا کارڈ دکھایا تاکہ وہ اچھے طریقہ سے جوتے پالش کرے۔

کارڈ دیکھ کر اُس نے اپنا برش سائیڈ پر رکھا اور صندوقچی سے اپنا ڈسٹرکٹ رپورٹر روزنامہ ”بوریت” کا کارڈ نکال کر میرے سامنے کر دیا جسے دیکھ کر دِن میں میری آنکھوں کے آگے تارے جھلملانے لگ گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا شرمندگی کی حالت میں پورے پیسے دے کر ہی جوتے وصول کرنا پڑے۔ بعد ازاں درزی کے پاس چلا گیا اور اُس پر بھی رعب جمانے کیلئے پریس کارڈ نکال کر دکھایا تاکہ وہ میرے کپڑے خراب نہ کر دے۔ درزی نے سلائی مشین کو ہاتھ سے دھکیل کر تھوڑا سائیڈ پر کیا اور ٹیبل کی دراز سے روزنامہ ”چھان بُورا” کا کارڈ نکال کر میری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ کارڈ دیکھ کر جیسے میرے پائوں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ہو۔ موصوف وہاں وقائع نگار تھے۔ اگلے روز ایک دوست کی جیب پر نظریں جما کر اُس کے ساتھ کھانا کھانے ہوٹل چلا گیا اور ویٹر پر رعب جھاڑنے کیلئے اپنا پریس کارڈ دکھایا تاکہ وہ ٹیبل اور برتنوں کی اچھی طرح سے صفائی کر کے مہذب انداز میں کھانا لا کر ہمارے سامنے لگی ٹیبل پر سجائے۔ میرے صحافی ہونے کا سُن کر ویٹر پہلے تو زیرِ لب مُسکرایا پھر ہاتھ میں پکڑا صفائی والا کپڑا اپنے کندھے پر ڈال کر شلوار کی جیب سے پریس کارڈ نکال کر مجھے تھما دیا۔ کارڈ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، موصوف روزنامہ ”پٹاخہ” میں بیورو چیف تھے۔

ہوٹل سے نکل کر سبزی والے کی طرف رُخ کیا۔ اُس کو سبزی کا آرڈر دے کر ڈرتے ڈرتے اپنا کارڈ اُس کی طرف بڑھایا تاکہ سبزی خراب نہ دے، سبزی فروش نے کارڈ دیکھ کر شاپر سائیڈ پر رکھا اور جیسے ہی اُس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا میں نے اپنا سامان سنبھالا اور گھر کی جانب بھاگنے میں ہی غنیمت سمجھی۔ راستے میں پہلے تو یہ سوچا کہ کیوں نہ صحافت کو خیرباد کہہ دوں پھر خیال آیا کہ اپنا رعب کسی سرکاری ملازم پر جھاڑ کر پچاس، سو روپے کھرے کر لیتا ہوں کیونکہ یہ لوگ سرکار کے ملازم ہونے کے ناطے قانوناً صحافت نہیں کر سکتے۔ پچاس، سو روپے اس لئے کہ میں نے اپنے لفظوں، اپنے جملوں کو اتنا نیلام کر دیا تھا کہ جس طرح لنڈا بازار میں چیزیں نیلام ہوتی ہیں، اتنی گراوٹ شاید کہیں نہیں ہو گی کہ جتنی میرے لفظوں میں آ گئی تھی۔ پچاس سے دو سو تک وصول کر کے کسی کی بھی تعریفوں کے قلابے ملانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کسی کی سرعام عزت اُچھالنی ہو یا پھر جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ہو تو گاہک سے پانچ سو تک بھی اینٹھ لیتا اور کبھی ہزار کا نوٹ بھی مِل جاتا۔ بہرحال بات موضوع سے ہٹ کر کہیں اور چلی گئی۔ راستے میں ایک پرائمری سکول تھا، گیٹ سے داخل ہوتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ اُستاد جی بچوں میں کم اور موبائل میں زیادہ گُم ہیں۔ یہ سنہری موقع بھلا کیسے ہاتھ سے جانے دے سکتا تھا، فوراً ہی رعب جھاڑتے ہوئے اپنے صحافی ہونے کا بتایا اور اگلے دِن اخبار میں خبر پڑھنے کی تاکید کی۔ میری باتیں سُن کر اُستاد جی نے اپنی سامنے والی پاکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مجھے لگا کہ شاید وہ کڑکتا نوٹ نکال رہے ہیں لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔

اگلے لمحے ہی ایک کارڈ میری نظروں کے سامنے تھا جسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ موصوف روزنامہ ”لکیر” میں کرائم رپورٹر ہیں۔ چنانچہ میں کھسیانا سا ہو کر رہ گیا اور اپنے موبائل کو کان سے لگا کر ہیلو، ہیلو کرکے وہاں سے کھِسکنے میں ہی بہتری سمجھی۔ گھر کے قریب پہنچا تو دروازے پر دودھ فروش کو موجود پایا۔ ہر جانب سے ناکامی کے بعد سوچا چلیں آج اِسی پر رعب جھاڑ دیتے ہیں۔ اُسے اپنے صحافی ہونے کا بتایا اور دودھ کا معیار بہتر کرنے کی ہدایت کی۔ یہ سُن کر گوالے نے قہقہہ لگایا، اپنا میلا کچیلا بٹوہ کھولا اور ایک کارڈ باہر نکال کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ کارڈ دیکھ کر انکشاف ہوا کہ دودھ فروش بھی کوئی عام بندہ نہیں بلکہ کسی ”ٹین ڈبہ” نامی اخبار کا تحصیل رپورٹر ہے۔ میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا لیکن پھر خود کو حوصلہ دیا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ بیگم کے پاس محلّے بھر کی تازہ ترین خبریں سُنانے والی خالہ خیرن موجود ہیں۔ خالہ صحافت میں یدِطولیٰ رکھتی ہیں مگر بیچاری کے پاس کارڈ نہیں ! اب میرا ضبط جواب دے گیا۔ اپنے گریبان میں جھانکا تو شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ اِس دوران ہی پائوں لڑکھڑانے لگے اور دھڑام سے زمین پر گِر پڑا۔ جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کوئی منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہا ہے، کوئی ہتھیلی کو مَسل رہا ہے اور کوئی پائوں دبا رہا ہے۔ ڈاکٹر کو دیکھ کر اور بھی پریشان سا ہو گیا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ اگلے ہی لمحے پیٹی بند بھائیوں کو بھی اَپنی نظروں کے سامنے موجود پایا جنہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ یکدم ہی میری زبان سے نکلا ”ہائے رے صحافت” !!!

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر : نجیم شاہ