تحریر : شاہد شکیل صحافت اور تاریخی مواصلات پر ریسرچ کرنے والے نیورن برگ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کا کہنا ہے صحافت کا دنیا بھر میں آعلیٰ مقام ہے لیکن پریس سے منسلک کئی ذرائع ابلاغ دروغ گوئی کا سہارا لیتے ہیں،اخبارات پر صدیوں سے تنقید کی جارہی ہے کہ محض دولت و شہرت کے حصول کیلئے من گھڑت کہانیاں اور دیگر مواد شائع کیا جاتا ہے ان میں حقائق کی پردہ پوشی اور فرد واحد کے دماغی طلسم یا فینٹازی کے زیر اثر محض اخبارات کی کثیر تعداد میں فروخت کو مد نظر رکھا جاتا ہے ،لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کیلئے سنسنی خیز تبدیلیاں اور ردو بدل کرنے کے علاوہ بڑھا چڑھا کر جھوٹ اور سچ کا امتیاز ہی ختم کر دیا گیا ہے۔تاریخ کے اوراق کے مطابق چار سو سالوں سے قارئین نامہ نگاروں اور اخبارات کو تنقید کا نشانہ بنا کر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ چند نام نہاد ا فراد جن کا صحافت سے دور تک واسطہ نہیں شہرت کیلئے صاف گوئی کو دروغ گوئی میں بدل رہے ہیں اور دولت کمانے کی خاطر زیادہ تر جھوٹ شائع کیا جاتا ہے۔
طباعت کے ابتدائی دور میں مصنیفین دروغ گوئی سے اجتناب کرتے اور محتاط رہتے تھے کہ حقائق کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی ،پروفیسر کا کہنا ہے یہ مفروضہ نہیں بلکہ حقائق ہیں اور کئی بار پریس کی غیر ذمہ داری پر بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ آخر کب تک جھوٹ کا سہارا لیا جائے گا،اخبارات پر تنقید نئی نہیں بلکہ سترویں صدی سے متنازعہ موضوع ہے کہ حقائق میں تبدیلیاں کرنے اور تحریری مواد میں ردو بدل کیا جاتا ہے چونکہ سابق صحافی حقائق کی روشنی کو تسلیم کرتے اور خوفزدہ نہیں تھے ذمہ داری ان کا نصب العین تھا جبکہ موجودہ دور میں تقریباً ہر لکھاری ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتا ہے اور جانتا ہے کہ حقائق میں ردو بدل کرنے یا سنسنی پھیلانے سے نام و مقام تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی اور سچائی ایک دن روشنی بن کر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔
یورپ میں اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ چار سو سال قبل جوہان کارولس نے شروع کیا ،ریلیشن کے ٹائٹل سے یہ اخبار ہفتہ وار سٹراس برگ سے شائع ہوتا تھا ،ابتدا میں ہی کارولس نے اپنے اخبار کے ذریعے قارئین کو بتا دیا تھا کہ اشاعت ،الفاظ اور مختلف مضامین میں غلطیاں ہو سکتی ہیں جنہیں دورانِ مطالعہ قارئین اپنے تہی درست کر سکتے ہیں ، ریلیشن اخبار کو پسند کیا گیا اور لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے صحافتی شعور اور ذہن رکھنے والوں نے دیگر شہروں اور علاقوں سے اخبارات شائع کرنا شروع کئے۔چار سے چھ افراد پر مشتمل عملہ ہوتا اور اشاعت سے قبل جانچ پڑتال کیلئے نیوز پروف کی جاتیں جنہیں اخبار کا مالک خود سر انجام دیتا کیونکہ اس دور میں پبلشر ز کے نہ تو زیادہ نمائندے ہوتے اور نہ ہی ایڈیٹنگ کا عملہ کہ تصدیق کی جاسکے خبر سچ ہے یا جھوٹ اور کہاں غلطیاں کی گئی ہیں۔
Newspapers
پبلشرز کی ہری جھنڈی کے بعد مخصوص علاقوں کے پوسٹ مین پریس میں آتے اور اپنے علاقے میں تقسیم کرنے کے لئے مخصوص اخبارات لے جاتے اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا ،پبلشرز کو نیوز عام طور پر یہی پوسٹ مین مہیا کیا کرتے اور ہر نئی نیوز کا انہیں معاوضہ دیا جاتا بدیگر الفاظ جتنی سنسنی خیز نیوز اتنا بھاری معاوضہ علاوہ ازیں نیوز کی خرید و فروخت پبلشرز کی سطح پر بھی جاری رہتی اور پوسٹ مین کورئیر ز کا کردار ادا کرتے عام طور پر نیم پیشہ ورانہ کالم نگاروں کا تحریر کردہ مواد خرید کر ردو بدل کے بعد شائع کیا جاتا جو ایک کمزور نظام تھا،کثرت سے غیر یقینی پیغامات اور خبریں کھیل کے مترادف تھیں کیونکہ اناڑی لکھاری لاتعداد غلطیاں کرتے کئی بار تو الفاظ کے معنی سمجھ میں نہ آنے کی بجائے خبر ہی الٹ ہو جاتی زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں کو مرچ مصالہ لگا کر چٹپٹا بنایا جاتا۔
رفتہ رفتہ باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والے جان چکے تھے کہ زیادہ تر دروغ گوئی سے کام لیا جا رہا ہے مثلاً آگ بھڑکنے سے گھر جل کر راکھ نہیں ہوا بلکہ نقصان پہنچا ہے یا موت واقع نہیں ہوئی بلکہ شدید زخمی ہے وغیرہ وغیرہ۔سچ اور جھوٹ کے اس کھیل کا پردہ ایک وکیل نے اٹھایا اور حکومت کے توسط سے تمام پبلشرز کو بذریعہ ڈاک وارننگ دی کہ عوام سے سنگین مذاق بند کیا جائے اور بے وقوف بنانے کی حما قت سے گریز کیا جائے نہیں تو قانونی چارہ جوئی ہو گی جس کے نتیجے میں پریسوں کو تالے بھی لگ سکتے ہیں۔
وکیل کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی اور چند ماہ کیلئے ان کا تمام کاروبار ٹھپ ہو گیا محدود و مخصوص خبریں شائع کی جاتیں لیکن جیسے ہی انہیں اطلاع ملی کہ وکیل کسی دور دراز شہر منتقل ہو گیا ہے اور واپسی کا کوئی امکان نہیں پھر سے وہی دھندہ شروع کر دیا گیاایک پبلشر کی خبر دوسرے کو دوسرے کی تیسرے تک پہنچانے کا ذمہ پھر پوسٹ مین نے لیا اور کئی سالوں جھوٹ سچ کی صحافت جاری رہی۔
Journalists Today
انیسویں صدی میں جدید صحافت کا آغاز ہوا جس میں صحافیوں اور قارئین نے یکسر پرانے طریقے کو رد کیا اور جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ دو طرفہ باہمی تبادلہ خیال سے صحافت کو نیا رنگ و روپ دیا دنیا بھر میں آبادی کی رفتار میں اضافہ کے ساتھ ہر پبلشر میں جستجو پیدا ہوئی کہ نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے اور کثیر سرمایہ لگانے کے بعد صحافت کو ایک آعلیٰ مقام حاصل ہوا،مثلاً نئے پرنٹنگ پریس ،تعلیم یافتہ عملہ ،نیوز اور دیگر مواد کی پروف ریڈنگ اور رنگین صفحات وغیرہ۔آج سب کچھ تبدیل اور جدید ہونے کے باوجود بھی ہائی ٹیک سے صحافت میں دروغ گوئی شامل ہے ، رسائل، میگزین، اخبارات ،ریڈیو ، ٹی وی، انٹر نیٹ وغیرہ میں دروغ گوئی کا عنصر موجود ہے اور صرف وہی مواد خریدا اور بیچا جارہا ہے جو سسپنس سے بھرپور ہو یہ سچ ہے کہ تیز رفتار زندگی میں روزانہ ہزاروں انسانوں کے ساتھ طرح طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔
لیکن ان واقعات میں کتنی سچائی یا جھوٹ شامل کرنا ہے صحافت کے کھلاڑی بخوبی واقف ہیں،آج بھی صحافت جیسے باوقار شعبے پر تہمت لگائی جاتی ہے کہ فلاں نے فلاں کی خبر چوری کی یا کالم کی نقالی کی یا خریدا ۔ صحافت ذمہ داری ، حقائق پر مبنی ، اصول اور ایک دائرہ کار کے اندر رہ کر عوام کو ہر شے سے باخبر رکھنے کا معزز شعبہ اور پیشہ ہے لیکن افسوس کہ چند کوڑیوں کی خاطر چند افراد اس پیشے کی پیشانی پر کلنک لگا رہے ہیں ۔مغربی ممالک میں قوانین اور ان پر عمل درامد ہونے سے جرمانے اور سزائیں دی جاتی ہیں کیونکہ کسی بھی فرد کی تحریر کا ایک لفظ بھی چوری کرنا جرم ہے ممکنہ طور پر پبلشرز کو جرمانہ کی ادائیگی کے علاوہ جیل کی سزا اور پرنٹنگ پریس کو ایک عرصے یا مکمل طور پر سیل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
جبکہ ترقی پذیر ممالک میں پریس اور پبلشنگ کے قوانین ہونے کے باوجود روزانہ کسی نہ کسی نیوز ، کالم ،تصاویر اور دیگر مواد کی چوری ،نقالی یا کاپیز کی جاتی ہیں ۔ایک اخباری رپورٹر اپنی جان پر کھیل کر خبر حاصل کرتا ہے تاکہ اسے اور پبلشرز کو فائدہ ہو ترقی ہو لیکن اسکی محنت چند منٹوں میں غارت ہو جاتی ہے جب کوئی دوسرا اسکی محنت پر چوری کرنے سے جھاڑو پھیر دیتا ہے۔