بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے کہ ایک نجی نیوز چینل نے خبر بریک کر دی کہ سینئر صحافی کالمسٹ و اینکر حامد میر جان لیوا حملہ میں زخمی ،وہ اسلام آباد سے کراچی اپنے ہیڈ آفس جا رہے تھے کہ راستے میں کراچی ایئر پورٹ کے قریب گھات لگائے دو موٹر سائیکلوں اور ایک گاڑی پر سوار ملزمان نے اُن پر فائرنگ کر دی ، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے ، یہ خبر سنتے ہی سب لوگ اپنا اپنا چین سکون کھو بیٹھے اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے حق و سچ کی آواز بلند کرنا کوئی بہت بڑا جرم بن گیا ہو،خیر ابھی یہ خبر چل ہی رہی تھی کہ پولیس چیف بھی لائن پر آگئے اور گہرے رنج و غم کا اظہار کرنے کے بعد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ حامد میر صاحب نے اس دفعہ کراچی آنے سے قبل اپنی آمد کے متعلق آگاہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ورنہ ایسا کبھی نہ ہونے دیتے ، اس کے بعد خبر کی تفصیل شروع ہو گئی کہ حامد میر صاحب کے جسم کے نچلے حصہ میں تین گولیاں لگی ہیںجس کے نتیجہ میں کافی خون بہہ چکا ہے۔
مگر اس کے باوجود وہ اپنی گاڑی سے خود اُتر کر ایمبو لینس میں بیٹھے اس دوران وہ کچھ قرآنی آیت پڑھ رہے تھے ،یہ کچھ ایسی خبریں تھیں جو ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلیں جس نے ہر طرف سوگ ہی سوگ برپا کردیا جس کے نتیجہ میںملک کے ہر صحافتی ،سیاسی، سماجی ،مذہبی و عسکری عقابرنے اس واقع پر گہرے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے واقع کی بھرپور انداز میں مذمت بھی کی ،مگر جتنا دُکھ ہماری یونین (سی سی پی ) نے محسوس کیا اِتنا تو شاید مِیر صاحب کے اپنے ادارے نے بھی نہ کیا ہو جِس کیلئے وہ پرو گرام کرتے ہیںکیونکہ ہمارا وہ پیٹی بھائی ہے۔
اور دوسری وجہ یہ کہ آج اگر اُن پر اٹیک ہوا ہے تو کل ہم میں سے بھی کسی پرہو سکتا ہے،کیونکہ ہم کونسی کوئی سٹیل کی باڈی رکھتے ہیں،خیر مختصر یہ کہ یہ ایک ایسا المناک واقع تھا کہ پاکستان کا بچہ بچہ حامد میر کیلئے دعا گو ہو گیا یہاں تک کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اس واقع کا بہت گہرا دُکھ محسوس کرتے ہوئے حامد میر پر اٹیک کرنے والوں کی نشاندہی کرنے یا اُن کی گرفتاری میں مدد کرنے والے کو دیڑھ کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی جوڈیشیل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھ دیا،جو کہ انصاف کی فراہمی کیلئے کسی بھی حکومت کاایک بہت بڑا اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
مگر افسوس کہ اسی ہی دوران میر صاحب کے بھائی کی طرف سے پاکستان کے ایک انتہائی معتبر ادارے آئی ایس آئی پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی گئی، جسے سُنتے و دیکھتے ہی پوری کی پوری قوم کے ذہن ایسے تبدیل ہوئے جیسے سفید کاغذ پر کچی پنسل سے لکھی ہوئی کسی تحریر کو مٹا کرپکی سیاہی سے اُس تحریر کے بر عکس کوئی چیز لکھ دی جائے ،اورایک دوسرے سے لوگ ایسے ایسے سوالات کرنے لگے جن کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو ،کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا جب ایک دس کو بے وقوف بنا جاتا تھا یہ بہت جدید دور ہے اب کمپیوٹرانٹر نیٹ و سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر فرد با شعور ہے کسی کو کچھ بھی پڑھانے، سمجھانے یا بتانے کی کبھی کوئی ضرورت پیش ہی نہیں آتی لوگ خود بخود ہی سب کچھ سمجھ جاتے ہیں،اسی ہی لئے تو آئی ایس آئی کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہن مکمل طور پر ہی اُلٹ گئے اوراُن کے ذہنوں میں سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوا کہ آئی ایس آئی نے ایسا گھنائونا فعل کر کیسے لیا وہ تو خود آزادی صحافت یقین رکھنے و اس کا پرچار کرنے والا ادارہ ہے۔
وہ تو ایک ایسا ادارہ ہے جس نے پاکستانی سلامتی و آئین کی حکمرانی کیلئے ایسی ایسی قربانیاں دیں ہیں کہ جن کی کہیں کوئی دوسری مثال ہی نہیں ملتی اور دوسرا سوال یہ کہ اگر کیا بھی ہے تو اُن کا نشانہ کیسے خطا ہوگیا ؟اُن کے لوگ تو اِس قدر ٹرینگ یافتہ ہوتے ہیںکہ اُنہیں اگر بال پہ چلتی ہوئی چیونٹی کے سر کو بھی نشانہ بنانے کا ٹارگٹ دے دیاجائے توبھی یہ لوگ دوسرا وار کئے بغیر ہی با آسانی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ISI
لہذایہ کاروائی آئی ایس آئی کی نہیں بلکہ کسی دوسرے سازشی عنصر کی ہے،جس نے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کیلئے ایک معصوم صحافی کو نشانہ بنا ڈالا اور حامد میر کے بھائی کو اس پرمیر صاحب کی مکمل صحت یابی یا پھر اُس وقت تک کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا جب تک اُن کے ہاتھ کوئی ایسا ثبوت نہ آجاتا جس سے وہ اپنی کہی ہوئی بات کو ثابت کر پاتے ،اور ثبوت ہاتھ میں لے کر جو دِل چاہے بول دیتے ،اب اس حملے اوربغیر کسی ثبوت یا تحقیق کے عائد ہونے والے اِس الزام کو لوگ اپنے سرمیں خود ہی مٹی ڈالنے کے مترادف اور ملکی سلامتی کے خلاف ایک بہت بڑی سازش سمجھ رہے ہیں ،حتیٰ کہ یہ بیان اُس نے اپنے بھائی کے دُکھ کی وجہ سے جذبات میں آکر دیا،کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ جس کا نقصان ہو جائے اُسے تو امام بھی چور ہی دکھائی دیتے ہیںمگر اسے سمجھنے کی بجائے اُس پر ہر بندہ اپنے ہی انداز میں تنقید کر رہا ہے ،کیونکہ ہر شخص کی ایک اپنی ہی سوچ ہوتی ہے۔
اُس کے اظہار یا اُس کی سوچ پر پابندی تو لگائی نہیں جا سکتی مگر سوچنے یا سوچ کا اظہار کرتے وقت ہمیںملکی دفاعی اداروں کے تقدس کا خیال ضرور رکھنا چاہئے اور کیچڑ اُچھالنے کی بجائے اپنے ہمیں اُن کا حتساب اپنے ملکی آئین پر یقین رکھتے ہوئے کرنا چاہئے تاکہ ملکی وقار پر بھی حرف نہ آئے اورسائل کو انصاف بھی مِل جائے اور پھر جو بھی کرنا ہو اُس متاثرہ سائل کی خواہش کے عین مطابق سب کو مِل کر کرنا چاہئے تا کہ اُس مجرم کے کہیں بھاگنے یا بچ نکلنے کا کوئی بھی راستہ باقی نہ رہے ، مگر ملکی عزت وقارو سلامتی کو ہمیں پھر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ورنہ یذیدی غلامی کے سوا کچھ نہیں،اللہ ربُ لعزت ہمارے اندر اپنے وطنِ عزیز کی اپنی جان سے محبت پیدا فرما کر ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنے کی ہمت و تو فیق عطا فرمائے :آمین (فی ایمان ِللہ)۔