تحریر : اختر سردار چودھری صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو ، صحف، سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں۔ یعنی ایسا مطبوعہ مواد، جو شائع ہوتا ہے صحافت کہلاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہی اصطلاح رائج ہے، جبکہ انگریزی میں اسے Journalism کہا جاتا ہے۔ جو ”جرنل” سے ماخوذ ہے۔جنرل کو ترتیب دینے والے کے لئےJournalist یا صحافی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایسے صحافی جو اس پیشہ کو مکمل طور پر اپناتے ہیں یا اسے ذریعہ روزگار بناتے ہیں انہیںWorking Journalist کہا جاتا ہے۔ جو صحافی جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں یا کسی ایک اخبار سے وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین، فیچر، کالم لکھتے ہیں وہ آزاد صحافی (Freelance Journalist) کہلاتے ہیں۔ صحافت کا خاص طور پر اردو صحافت کا علمی ، ادبی ،تعلیمی، ثقافتی اور تہذیبی پہلو بھی ہے۔ہم عام طور پرعلمی پہلو کو دیکھیں تو اخبار ہی واضح دیکھا جاسکتا ہے۔جس میں علم کے حوالے سے بہت ساری معلومات میسر ہوتی ہیں ۔صحافت کی زبان کے بھی تین پہلو ہوتے ہیں پہلا علمی ،دوسرا ادبی اور تیسرا مواصلاتی یعنی عام بول چال ، اس لئے اردو صحافت کی زبان معیاری ،بے مثال ،خوبصورت اور نمایاں ہوتی ہے ۔صحافت کی کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں اور اتنی نئی بھی نہیںہے ۔ ہمارے بہت ہی محترم شاعر جناب جبار واصف کہتے ہیں کہ جو قسم کھاتا ہے رکھوں گا قلم کی حرمت زر کی خاطر وہ قلم کار بدل جاتا ہے
آج کی صحافت ہے بھی اسی طرح کی ، جس کو بھی کسی صحافی بھائی سے پریشانی کا سامنا ہو تووہ بھی فوری یا تو کسی اخبار کی نمائندگی لے لیتا ہے اگر استطاعت رکھتا ہو تو وہ اخبار نکال لیتا ہے۔ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سارے سیاست دان ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے صحافت میںخوب نام کمایا اور بہت سارے صحافیوں نے بھی سیاست میں قدم رکھا عملی کام کر کے اپنا ایک نام بنایا ۔جناب جبار واصف کہتے ہیں کہ سچ لکھنے والوں کے لئے بھی اخبار ہونا چائیے ،وہ کہتے ہیں ۔ جو صحافی خوں سے لکھنا چاہتے ہیں سچ یہاں اُن کی خاطر بھی کوئی اخبار ہونا چاہئے
صحافی کا کام ہے سچ بولنا اور لکھنا ، وقت کے حا کم کے ڈر اور خوف سے خاموش نہیں رہنا چائیے بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا چائیے۔سماجی ، سیاسی معاشرتی ترقی میں کلیدی کرداربھی صحافی ہی ادا کرتے ہیں ۔ اور عوام تک سچائی پہنچانے کے لئے ،اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان تک لڑا دیتے ہیں ۔ راقم الحروف نہ تو بڑا صحافی ہے اور نہ ہی اتنا بڑا کالم نگار،صرف ادب اور ادیب سے لگائو ،صحافی اور صحافت سے وابستہ ضرور ہے ۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ صحافی کو سچ بولنا چائیے ،سچ ہی آزادی صحافت کی نشانی اور پہچان ہے،صحافت مقدس پیشہ ، معاشرے کی تیسری آنکھ ہے اور جمہوریت کا چوتھا ستون بھی صحافت ہی کو مانا جاتا ہے ۔ جناب جبار واصف ایک اور سچ بیانی کرتے ہیں۔ اپنی پیشانی پہ سچ لکھنے کی آیت لکھ کر کس کے کہنے پہ یہ اخبار بدل جاتا ہے
Urdu
اردو کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے شائد صحافتی برادری کیلئے ایک بڑی انقلابی نظم کہی ہے ۔اس کا ہر ایک لفظ دل ودماغ میں اترجاتا ہے اور جسم وجان میں ایک جوش وولولہ کی ایک نئی روح پھونک جاتا ہے ۔بول کہ لب آزاد ہیں تیرے بول کہ زباں اب تک تیری ہے کتابوں میں عوام الناس کو ادب ، صحافت ، سیاست ، سماجیات ، نفسیات ، کامرس ، مملکت ، عالمی حالات ، مشرق و مغرب ،سیاست اور معاشرتی ،سماجی مسائل کی عکاسی مل جاتی ہے۔کتابیں سیاسی ، سماجی ، ثقافتی روحانی ، تہذیبی شعور اور ذہن کو بالیدگی عطا کرتی ہیں اور ذہنوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ سید بدر سعید کی کتاب صحافت کی ایک مختصر تاریخ ہے ،جس میں پاکستان سمیت برصغیر پاک وہند کی صحافت کے ارتقائی عمل کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کتاب 288صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس میں صحافت کی مختصر تاریخ،نئی اور سابقہ جمہوریت کا سفر،پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں ، جمہوری دہائی کے دوران صحافت کا سفر،ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتیں، الیکٹرانک میڈیا،پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے قوانین پاکستان صحافیوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک،معاشرے میں بنیادی پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور متوازی ذرائع ابلاغ کا ظہور اور ویج بورڈ کے لیے جدوجہد جیسے اہم موضوعات سمیت بہت کچھ شامل ہے۔
جبکہ کتاب میں 100 برس سے بھی زیادہ پرانے اخبارات کے عکس شامل ہیں، جس سے کتاب کی اہمیت و افادیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جس میں برصغیر کے پہلے صحافتی قانون سے لے کر حالیہ سائبر کرائم بل تک معلومات شامل ہیں۔ اس میں مختلف اخبارات کے قیام پاکستان کے بعد پہلے ایڈیشن کی تصاویر بھی شامل ہیں۔مصنف کی تحقیقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب میں محض 1940 ء سے 1947 ء تک کے 7 برسوں میں قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والے 132 اخبارات کے نام، ایڈیٹرز کے نام، مقام اشاعت اور زبان کی فہرست بھی دی گئی ہے۔
Syed Badar Saeed
اس کتاب کے ہر موضوع پرگفتگوگوکہ مختصرہے مگر بحث سیر حاصل ہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے مختلف ادوار اور اسے درپیش مشکلات کو سمجھنامزید آسان ہوگیاہے ۔یہ تمام موضوعات صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔خاص طورپر وہ عالمی اور مقامی حلقے جو پاکستان میں آزادیِ اظہار اور صحافتی شعبے کو درپیش مشکلات کے بارے میں آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں،اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کتاب میں گراں قدرعلمی حوالہ جات کے ساتھ مصنف نے اپنے قیمتی مشاہدات کو بھی سپرد قلم کیا ہے گویا انہوںنے صرف اپنے مطالعے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جو کچھ کھلی آنکھوں دیکھا اور محسوس کیا،اسے بحیثیت صحافت کے ایک طالب علم اور صحافتی شعبے کے فعال رکن کے طور پر اپنے قلم سے کاغذ پر منتقل کردیا۔
صحافت کے عصری منظر نامہ کو اپنا مرکزی خیال بنانے والی یہ کتاب اردوصحافت کی منفرد اندازِمیں سیر کراتی ہے ۔صحافت سے وابستہ حقائق اوربعض کڑوی سچائیوں کو انتہائی برجستگی اور بے باکی سے پیش کیا گیا ہے ۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عصر حاضر کی صحافت کی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو صحافت سے جڑی نئی نسل کو اردو صحافت کی تاریخ سے نکال کر دور جدید میں آنے ولی درپیش مشکلات اور چیلنج سے نکالنے کے لئے مدد اور رہنمائی بھی فراہم کرے گی ۔ پاکستان میں خاص نوعیت کی اس منفرد کتاب کی اشاعت پر صحافتی، ادبی و علمی حلقوں کی جانب سے خوش آئند اضافہ قرار دیا ہے۔ ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
سید بدر سعید ایم فل ریسرچ اسکالر ہیں، ایک درد دل رکھنے والا نوجوان ہے ،ہر وقت ہزاروں دوستو ںکی دعائوں میں رہتا ہے ، اس کی پہلی شہرہ آفاق کتاب خود کش بمبار کے تعاقب میں ، کے بعد نئی آنے والی کتاب صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین و ضابطہ اخلاق کی تقریب رونمائی 18ستمبر 2016 ء کو لاہور پریس کلب میں منعقد ہورہی ہے، جس میں نامور سینئر صحافی ، سینئرکالم نگار ،ایڈیٹرزاور اینکرپرسن ،سیلم بخاری ،معین اظہر ،خاور ہاشمی ،سہیل وڑائچ ،منو بھائی ،حافظ شفیق الرحمن ،سجاد میر ،حامد ریاض ڈوگر ،ایثار رانا ،نجم ولی خان ،روف طاہر سمیت دیگر اظہار خیال کریں گے۔ دوست احباب کو دعوت عام ہے۔