صحافی کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے

Journalist

Journalist

کہا جاتا ہے لیکن صحافی پاکستان کا مظلوم ترین طبقہ بن چکے ہیں۔ انہیں خصوصی نشانہ بنا لیا گیا ہے۔ آزاد صحافت کے چرچے عام ہیں مگر اہل قلم کو آزادنہ کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اہل صحافت نے پابندیوں، کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے۔ صحافت کا ایک پہلو چھپی چیزوں کو منظرعام پر لانا بھی ہے اس لئے بہت دشمن پیدا ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے (آر ایس ایف) رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملکوں میں شامل ہے۔ حکومت پر انصاف کی فراہمی میں سستی کا الزام عائد کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں سات رپورٹرز اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کردیے گئے تھے۔

اس کے مقابلے میں دس صحافی شام میں ہلاک ہوئے، آٹھ فلپائن میں اور سات صومالیہ میں۔180 ملکوں کی پریس فریڈم انڈیکس میں سے پاکستان کو ایک سو اٹھاون واں ملک قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہید ہونے والے سات صحافیوں میں سے چار صحافیوں کی ہلاکتیں پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ہوئی تھیں، کیمرہ مین عمران شیخ اور ان کے ساتھ سیف الرحمان صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جنوری 2013ء کو ایک بم دھماکے کی کوریج کے لیے پہنچے تھے، جہاں وہ دونوں ہی دس منٹ کے بعد ہونے والے دوسرے دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم، ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ کے مطابق، پاکستان کے قبائلی علاقوں کے صحافیوں کی اکثریت دھمکیوں اور دباؤ کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہے اور اْن صحافیوں کی اکثریت قبائلی علاقوں سے منتقل ہونے کے باوجود اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے آزادانہ صحافت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔

Amnesty International

Amnesty International

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، گذشتہ دہائیوں میں 49 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا جس میں کہ 35صحافیوں کو نہ صرف اْن کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں اور رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، لیکن اب تک کسی بھی کیس میں ملزمان کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی اْنھیں سزا دی گئی۔دو دن قبل لاہور پریس کلب میں آل پاکستا ن ایسوسی ایشن آف فوٹو جرنلسٹ کے سیکرٹری جنرل محمد رمضان اورآل پاکستان سائبر نیوز سوسائٹی کے نائب صدر محمد شاہد محمود کے ہمراہ بیٹھا تھا تو بات چل نکلی کی مانسہرہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ابرار تنولی کو قتل کر دیا گیا۔صحافیوں نے اس قتل کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا مگر یہ واقعہ کوئی نیا نہیں۔صحافی آزادی صحافت کے لئے قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ ابرار تنولی آل پاکستا ن ایسوسی ایشن آف فوٹو جرنلسٹ کے ایگزیٹو ممبر اور مانسہرہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔

ان کا قتل ہزارہ ڈویڑن کے صحافیوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے دن دیہاڑے ملزمان نے فائرنگ کر کے ابرار تنولی کو قتل کیا اور موقع واردات سے فرار ہونے میں با آسانی کامیاب ہوئے جوکہ مانسہرہ پولیس کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آئے روز ملک میں میڈیا کے دفاتر اور صحافیوں پر حملے ہو رہے ہیں اور حکومت خاموشی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ہر ماہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو باقاعدگی سے قتل کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اس کا سدباب کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے ۔ حکومت ملک بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کے قاتلوں کی گرفتاریوں کیلئے واضح اور ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے۔ آخر صحافی کب تک اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔صحافیوں کے قاتل گرفتار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں سزائیں ملتی ہیں آخر یہ کیسا انصاف ہے جس سے ورثاء اور صحافی مطمئن نہیں۔پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر پْرتشدد واقعات آمرانہ دور میں بھی رونما ہوتے رہے جبکہ جمہوری ادوار میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں نامور صحافیوں کو جیلوں کی سلاحوں کے پیچھے جانے کا مزہ چکھنا پڑا جبکہ یہ سلسلہ جمہوری حکومتوں میں بھی جاری رہا۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کیساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں صحافی خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں گلوبل پاور گیم کی وجہ سے صحافیوں کو آزادانہ اور شفاف رپورٹنگ کے دوران بڑھتی ہوئی سختیاں بھی جھیلنی پڑتی ہے بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

تنظیم نے جنوبی ایشیاء کے ممالک میں صحافیوں پر تشدد اوران کے قتل اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ریاستوں کی ناکامی کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔بدقسمتی سے صحافی، جو خبروں اور اطلاعات تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہیں، انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ کچھ نہیں کیا جارہا جس کے وہ حقدار ہیں۔ اگرچہ میڈیا قومی اور بین الاقوامی مسائل پر معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، تاہم یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ میڈیا خود محروم ہے اور ان کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کوئی خصوصی قانون موجود نہیں ہے۔قانونی تحفظ کی عدم موجودگی کے باعث اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران صحافیوں پر تشدد، انہیں ہراساں کرنا، جان سے ماردینا یا بری طرح زخمی کردینا معمول بن گیا ہے۔ 2003ء سے لے کر اب تک سینکڑوں صحافیوں کوشہید کیا گیا اور اسی عرصے میںہزاروں کی تعداد میں صحافیوں پر حملے، تشدد ،قتل ، اغوائ، حراست، ہراساں کرنے یا انہیں خوفزدہ کرنے جیسے واقعات ہوئے۔ اب تک قتل کئے گئے کسی صحافی کے قاتل کو نہ تو گرفتار کیا جاسکا ہے اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلاکر سزا دی جاسکی ہے۔لہذا از حد ضروری ہے کہ کسی بھی صحافی کے اغواء اور قتل کے مقدمہ کو خصوصی عدالت میں چلایا جائے۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ کسی رپورٹر، کیمرہ مین، فوٹو گرافر اور ایسے دیگر تمام افراد جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں یا عام افراد ان کی زندگیاں اُتنی ہی قیمتی ہیں جتنی کہ اس ملک کے حکمرانوں کی زندگیاں۔حکومت صحافیوں کے تحفظ، ان کے لیے سماجی تحفظ فنڈ کے قیام، انہیں خصوصی سہولیات کی فراہمی جیسے مستقبل میں ایسے حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیںجن سے صحافی برادری کے مسائل کم کئے جا سکیں۔

ان کے خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جاسکے جن کے پیاروں کی زندگیاں ضائع ہوئیں یا وہ زخمی ہوئے یا انہیں دورانِ ڈیوٹی اغواء کرلیا گیا۔ صحافیوں کے حقوق، عزت، احترام اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا جائے تاکہ وہ زیادہ بہتر انداز میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں۔آج جبکہ ہر وزارت، ڈیپارٹمنٹ اور ڈویژن کے دروازے عام لوگوں کے لیے بند ہیں، میڈیا واحد ذریعہ ہے جو ان اداروں کے اندر ہونے والے معاملات سے عوام کو آگاہ رکھتی ہے۔ حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہئے اور انکی مشکلات و مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد کرنی چاہئے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472