کیا میں صحافی ہوں۔۔؟

Journalist

Journalist

تحریر : شفقت اللہ خاں سیال
میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کی ایمرجنسی میں کھڑا تھا۔اور منظر دیکھا رہا تھا۔کہ لوگ ایک چارپائی اٹھائے ہوئے ہسپتال کے میں گیٹ سے باہر جارہے تھے۔اور پھر روڈ پر چارپائی رکھ کر روڈ بلاک کردیا۔وہ کوئی خالی چارپائی نہیں تھی۔اس کے اوپر ایک انسان کی لاش تھی۔روڈ پر رکھ کر احتجاج کر رہے تھے۔کہ ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے ہمارا مریض مر گیا ہے آخر کار ہماراقصور کیا ہے۔وہاں پرمیرے صحافی بھائی کھڑے تھے۔لیکن کیا ہوا آخر کار دوتین گھنٹے روڈبلاک کرنے کے بعد وہ لاش کو لیکر گھر واپس چلے گئے۔کچھ دن کے بعد وہی عمل دوبارا اورلوگ تھے۔انھوں نے کیا آخرکار کیوں کیا۔اس بات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔وجہ کیا ہے۔جب انسان کو اللہ پاک نے آزاد کیا ہے۔اور ہر نعمت سے نوازا ہے ۔وہ شکر بھی ادا کرتا ہے۔کہ اس پاک ذات جس نے ہم کو وہ ہر نعمت عطاکی۔جس کا ہم کبھی شکوہ نہیں کرسکتے ۔حیرانگی تو اس بات کی ہے۔کہ میں انسان ہوں۔اور ایک انسان کے ساتھ بھلائی نہیں کرسکتا۔کیا مجھ کو انسان کہلانے کا حق ہے۔صحافی بھی ایک انسان ہے۔جس کو اللہ پاک نے خاص نعمتوں سے نوازا ہے۔لیکن افسوس ہے۔

لیکن ایک صحافی اللہ پاک کی عطا کردانعمتوں کا حق ادا کیوں نہیں کرتا ۔اور آج میں نے ان لوگوں کو دیکھاتے رہنے کہنے لگا۔کیا میں بھی ہوں۔میں نے کبھی حق اور سچائی کی بات کی کیا کبھی اچھے انسان کی قدر کی کیا میں نے کبھی کرپشن کرنے والوں کی کرپشن عیاں کی کیا کبھی ان کو سزا دلوائی۔جو لوگ انسانیت کے قتل ہے۔ان کے چہرئے سے کبھی پردا فاش کیا۔میں اس بات سے بھی حیران ہوں۔کہ آج تک جھنگ جوایک تاریخی شہرتھا۔اس شہر کو دوسرے صوبے والے کی تعریف کرتے ہے۔جھنگ کے لوگ بہت محبت کرنے والے۔اور محنتی لوگ ہیں۔اس شہر سے بڑے بڑے نامی گرامی لوگ پیدا ہوئے۔جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام روشن کیا۔لیکن اس ضلع جھنگ کے چند خاندان نے اس ضلع کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ایک اور اعیاں کرنا میرا حق ہے۔اس میں بہت عجیب قسم کی سیاست کی گئی۔اس ضلع کی عوام نے بھی ایک سوچ بنا رکھی ہے۔ہم نے صرف ووٹ دینا ہے۔اور ہمارا کوئی کام نہیں باقی جو کچھ بھی کرنا ہے۔ان لوگوں نے کرنا ہے۔ان کی سوچ ایمانداری کی سوچ ہے۔

لیکن آگے جن لوگوںنے جمہوریت کے نام سے یا اسلام کے نام سے ووٹ عوام سے مانگے۔کبھی اس عوام کی سوچ دیکھی ہے۔کہ عوام نے آپ کو ایک دفعہ ووٹ مانگنے پر آپ کو ووٹ دے رہے ہے۔کیاآپ نے1947ء سے لیکر 2016ء تک کونسا ایسا کام کیا ہے۔جس میں خاص طور پراس ملک پاکستان اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے کچھ کیا ہو۔میں اپنے گریبان میں جھنکا کر دیکھا جائے۔تو ہر شخص کوپتا چل جائے گا۔کون کتنا مخلص ہے۔اگر ایک کام بھی خاص پاکستان کے لیے کیا ہوتا۔تو پاکستان آج اتنا مقروض نہ ہوتا جوکام کیا ہے۔وہ صرف اپنی کمیشن اپنا حصہ لینے کے لیے۔کرپشن کی اس ملک پاکستان پر تمھ کا نقصان پہنچایا ۔اس ملک پاکستان میں آج بھی میر جعفر اور میر صادق موجود ہیں۔میں نے آج تک اپنے ضلع جھنگ کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے وہ ترقی کرسکے۔

Punjab

Punjab

بلکہ اس کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا ۔جو صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع تھا۔جو آج کئی حصوں میں تقسیم ہوکر تحصیل کی طرف گامزان ہے۔ضلع جھنگ کے جتنے ادارے ہیں۔اس میں لاکھوں کی روزانہ کے حساب سے کرپشن ہوتی ہے۔اور ہمارے ضلع کے اعلی افسران نے قسم اٹھا رکھی ہے۔جو کرپشن والے افسر اور باقی عہدئے دران جتنی کرپشن زیادہ سے زیادہ کریں گئے۔میں ان کو انعام دو گا۔اس کی زندہ مثال محکمہ صحت ۔ضلع کونسل ۔ٹی ایم ۔اے کے افیسر اور دوسرے عہددران کرپشن کرنے میں مصرف عمل ہے۔محکمہ ہائی وئے اور اکاونٹ افسر نے تو قسم اٹھا رکھی ہے۔کہ بغیر کمیشن کے کوئی کام نہیں کیا جائے۔اس ضلع جھنگ میں اعلی افیسر موجود ہے۔لیکن کام کوئی نہیں۔ذرائع سے معلوم ہواہے ۔کہ محکمہ صحت کو دیکھو تو ڈی ایم ا و صاحبہ نے محکمہ ہیلتھ سے پانچ لوگوں کو کرپشن رپوٹ کرنے پر سیکرٹری ہیلتھ پنجا ب کی ڈسپوزل پر لاہور بھیج دیا گیا۔ہاں یہاں آپ کو یہ بتاتا چلو کہ ان میں سے ایک ای ڈی او ہیلتھ آفس جھنگ کا سپریڈنٹ عبدالغفار ہے۔یہ سپریڈنٹ کی سیٹ پر کیسے آیا۔

آج تک کسی نے اس با ت پرغور نہیں کیا۔جوعرصہ دراز سے یہاں تعینات ہے۔ڈی ایم او اورسابقہ ڈسی سی او جھنگ نے ان کی کرپشن رپوٹ کرنے پر سیکرٹری ہیلتھ پنجا ب کی ڈسپوزل پر لاہور بھیج دیا گیا۔جس میںسے یہ تین حاجی صاحب شامل تھے۔ان کے واپس آنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔لیکن ڈی سی او جھنگ نادر چٹھہ کے ٹرانسفر کے بعد یہ دوبارہ واپس آگئے۔اس کی مثال ملتی ہے۔تم لوگ جتنی مرضی بھی کرپشن کروگئے۔اتنا بڑا کپ ملے گا۔کوئی تو ضلع جھنگ میں نیک ایماندار فرض شناش افیسر آئے گا۔جواس فرسودنظام کو درست کرئے گا۔اور ان کرپشن کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنائے گا۔میرا کام تھا آپ کو نشاندہی کروانا باقی آپ جانے آپ کا کام۔ایک صحافی ہونے ناتے میں تو حق اور سچ کی بات لکھتا رہوگا۔اور وہ میں نے جو کام شروع کیا یہ بہت پاکیزہ ہے۔اگراس کے لیے میری جان جاتی ہے۔تو جائے خوش نصیبی سمجھو گا۔حق سچ کہتے ہوئے مر گیا تو کوئی تو یاد کرئے گا۔

کم ازکم وہ تو یاد کرئے گے۔جس نے مجھ کو مار ہوگا۔ہمارے ملک پاکستان کے ہوں یا ضلع جھنگ کے سیاستدان ہوں۔یہ ہمیشہ کہتے ہیں۔کہ ہمارا کام ہے کہ ہم ہمیشہ پاکستان کی غریب عوام کے لیے بہت زیادہ کام کریں۔دراصل وہ یہ کہا رہے ہوتے ہے۔ہم اپنے لیے اور اپنے رشتے داروں کے کرلیں گے۔اس کے بعد آپ کے لیے کریں گے۔اس طرح کافی ٹائم گزار جاتا ہے۔اور پھر دوبارآتا ہیں۔اورکہتے ہے۔ہم اپوزشن میں بیٹھے تھے۔انشاء اللہ اب جتنے کے بعد اس علاقے کووہ ہر چیز دیں گے۔عوام پھر ان کی بات پر اعتماد کر لیتی ہیں۔اور ووٹ لیتے ہیں۔اور پھر پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے رحم کرم پر چھوڑدیتے ہیں۔اور پھر اوپر سے کہتے ہیں۔اس کو اللہ پاک نے عزت دینا تھی۔

Election

Election

لیکن اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔کہ ہم نے اس کو ایک دفعہ ووٹ دیا تھا۔اس نے کچھ کیا کے نہیں۔اور دوبارہ ووٹ ان کو ووٹ کیوں دیں۔کیا اب اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔لیکن پھر دیتے ہے۔کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں اگر دوسری طرف جائیںگے ۔وہاں پر سچ بولنا ہے۔وہاں گزارانہیں ۔محکمہ ایکسائز کے دفتر میں جائیں تو وہاں پر کھلم کھلہ ایجنٹ بیٹھے ہیں۔وہاں پر رشوت کے علاوہ کام نہیں کرتے۔کرپشن کرنے والا۔دوسرے کرپشن کرنے والے کو تحفظ ضرور دیتا ہے۔جس طرح لوکل گورنمنٹ ۔ٹی ایم اے سے مختلف ٹھیکیدار کو ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔کتنی کمیشن ملتی اور پھر ٹھکیدار حضرات نے کیا خاق کام کرناہے۔تحصیل و ضلع جھنگ میں کروڑوں اربوں روپے کے ٹینڈرہوئے ہیں۔کوئی ٹھیکہ 30فیصد32 فیصد35 فیصد وغیرہ پردیا جاتا ہے۔لیکن اندھا راجا بے دار نگری۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے ۔کہ جوپھر ایک اہم بات 2009ء سے 2016 سے لیکر سٹی ہسپتال کا بجٹ جتنا ملا ہے۔

اس سے تو دس ہسپتال اور بن سکتے ہیں۔لیکن پریشانی کی بات تو یہ ہے۔تقریبا سات یا آٹھ سال ہوچکے ہیں۔جس طرح سٹی ہسپتال 2009ء سے پہلے تھا۔اور آج بھی ویسے کا ویسے ہی ہے۔بجٹ جاتا کہاں ہے۔آڈٹ روپوٹ بھی ہر سال کی okہوتی ہے۔ہمارے وزیراعلی صاحب کہتے ہیں۔کہ میرے پنجاب میں کرپشن نہیں ہوتی ۔ وزیراعلی پنجاب اس سٹی ہسپتال کو تقریبا کروڑروپے دیئے چکے ہیں۔ایک لیڈی ڈاکٹر آئی تھی۔جس نے سٹی ہسپتال میں تقریبا دو ماہ میں 30آپریشن کردے۔اس پر سٹی ہسپتال کے ایس ایم او کو تکلیف ہوئی۔اور اس کو مجبور کر دیا۔۔کہ وہ سٹی ہسپتال میں ڈیوٹی نہ کرسکے۔

اس کی شکایت کر کے اس کا ٹرانسفر کروا یا۔عرصہ تقریبادس سال سے سٹی ہسپتال کے ایس ایم او ڈاکٹر راوارشد کو سٹی ہسپتال کام کرتے ہوئے ہوگئے ہیں۔اس سٹی ہسپتال کو آج ٹی ایچ کیو جھنگ سٹی ہونا چاہیئے تھا۔لیکن اس کی نااہلی کی وجہ سے اس چھوٹے سے ادارہ نے ترقی نہیں کی ہے۔جس کی کوئی مثال نہیں۔اس کو واقعی بڑا کپ ملنا چاہیے ۔اور آج تک کسی کی جرات نہیں اس سے کوئی پوچھ سکے۔میری خواہش ہے کہ کرپشن کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیئے۔میں تو دعا گوہوں۔کہ یا اللہ ان کو ہدایت دے۔

Shafqat Siyal

Shafqat Siyal

تحریر : شفقت اللہ خاں سیال