اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ انگریزی روزنامہ ڈان کے صحافی سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ’ای سی ایل‘ میں اس لیے شامل کیا گیا، تاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق چھپنے والی خبر کی انکوائری مکمل کی جا سکے۔
صحافی سرل کا نام ’ای سی ایل‘ میں شامل کیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں جمعرات کو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ اُنھیں یہ بتایا گیا تھا کہ سرل المائڈا نے دبئی جانے کے لیے بکنگ کروا لی ہے، تو اس بنا پر اُن نام ’ای سی ایل‘ میں شامل کیا گیا۔
’’اگر صحافی ملک سے باہر چلا جاتا، تو الزام حکومت پر لگتا کہ خود ہی انھوں نے خبر لیک کی اور اس کا جو مرکزی کردار ہے اُسے باہر بجھوا دیا ہے۔‘‘ وزیر داخلہ نے کہا کہ صحافی پر کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔
’’جب صحافی کہتا ہے کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہے ۔۔۔ ہم یہ دباؤ نہیں ڈالیں گے کہ ہمارے پاس کچھ ثبوت ہیں۔۔۔ ہم یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ بھائی یہ ثبوت درست ہے یا غلط ہے۔۔۔ میں آپ کو یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ اپنے ذرائع کے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ اپنے ذرائع کا تحفظ کرتے ہیں تو میں اس کا احترام کرتا ہوں۔‘‘
چوہدری نثار نے ایک مرتبہ پھر حکومت کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ڈان‘ اخبار کی خبر حقائق کے منافی تھی اور اس سے اُن کے بقول پاکستان کے مخالفین کو تنقید کا موقع ملا۔ ’’غیر ریاستی عناصر سے متعلق ہمارے دشمنوں کا جو موقف ہے، اس خبر کے ذریعے اُس کی تشہیر ہوئی۔‘‘
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں صحافی سرل المائڈا نے اپنی خبر میں تحریر کیا تھا کہ بند کمرے کے اس اجلاس میں سیاسی قیادت نے فوج سے کہا ہے کہ ملک میں موجود کالعدم تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن حکومت کی طرف سے روزنامہ ’ڈان‘ کی خبر کو ’’من گھڑت اور حقائق کے منافی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ وہ جمعہ کو ’آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی‘ کے نمائندوں سے مل کر اس معاملے پر حکومت کا موقف اُن کے سامنے رکھیں گے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ’ڈان‘ اخبارکی خبر سے متعلق انکوائری میں مزید افراد بھی شامل ہیں لیکن اُن کا تعلق شعبہ صحافت سے نہیں ہے۔
’’اگر سرل المائڈا کی دبئی سفر کرنے سے متعلق بکنگ نا ہوئی ہوتی تو اُس کا نام کبھی بھی ای سی ایل پر نا ہوتا، یہ مجبوری کے تحت کیا گیا۔۔۔۔ دو تین اور بندے اس انکوائری کا حصہ ہیں ۔۔۔ یہ انکوائری آئندہ دو تین چار دن میں ختم ہو جائے گی پھر ہر ایک کو آزادی ہو گی جو بھی اپنا کام کرنا چاہے اس پر کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔‘‘
اخبار ڈان کا اصرار ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق اُن کی خبر درست ہے اور معلومات کی تصدیق اور حقائق کی جانچ کی گئی تھی۔
اُدھر انسانی حقوق کی موقر بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی سرل کے بیرون ملک سفر پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
اس سے قبل بھی انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ صحافتی تنظیموں کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ سرل المائڈا کا نام ’ای سی ایل‘ سے نکالا جائے۔