مصطفی آباد/للیانی (نامہ نگار) حقائق سامنے لانے کی پاداش، کئی صحافی زندگیاں کھو بیٹھے مگر ان کی جان لینے والے کھلے دندناتے پھرتے ہیں، دنیا بھر میں ہر گزرتا سال صحافیوں کیلئے سختیوں، مشکلات اور مصائب کا ہی پیغام لاتا ہے،دنیا کے کسی بھی حصے میں جنگی حالات، یا دہشتگردی اور اس کیخلاف جنگ کی کوریج ،دھمکیوں،اغوا اور قتل کے واقعات رپورٹ کرنے والے صحافی، خود خبر بن رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار سنیئر صحافی مہر عبدالقیوم نے پریس کلب مصطفی آبادللیانی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں دنیا میں قتل کیے گئے صحافیوں کی تعداد 370 ہے۔ پاکستان میں دس سالوں میں 70 صحافیوں کو موت کی وادی میںدھکیل دیا گیا۔ اس سال دنیا میں 56 جبکہ پاکستان میں دو صحافی زندگیاں کھو بیٹھے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر صحافی اس بربریت کا نشانہ کیوں اقوام متحدہ گزشتہ دو برسوں سے 2 نومبر کو انٹرنیشنل ڈے ٹو ایند امپیونٹی فار کرائمز اگینسٹ جرنلسٹس منا رہی ہے۔
صحافیوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والوں کا اول تو سراغ ہی نہیں ملتا۔مل جائے تو بات آگے نہیں بڑھتی۔ماہرین قانون اسکی وجہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو قرار دیتے ہیں۔صحافیوں کے لیے پاکستان خبروں کی جنت مگر انکی حفاطت یا کسی حادثاتی صورت حال میں سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں ،سینئر صحافی ،حکومت اور صحافتی اداروں کو ذمہ دار گردانتے ہیں۔ صحافی ،خود کو خطروں کے سپرد کر کے عوام تک صحیح خبر پہنچانے کی جستجو میں ڈٹے ہوئے ہیں جو ان ناموافق اور پرخطر حالات میں سچ تک رسائی کیلیے جرات و جواں مردی کی علامت ہے۔