آج بازارمیں مجھے ایک رپورٹر دوست نظرآیا۔ میں نے اُسے “صحافی صاحب ” کہہ کر پکارا تو سلام و دعا کے بعد کہنے لگا مجھے صحافی نہ کہویار۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ تم تو صحافی کہلوانے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ آہ بھر کے بولا بس یار صحافت کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا جو چہرہ اب میرے سامنے آیا ہے، اس کے بعد خود کو صحافی کہلوانا اچھا نہیں لگتا۔
یہاںایک خاص سیاسی جماعت کو سپورٹ کر کے حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ چند افراد صحافت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔یار میں نے تو اس شعبہ کو عبادت سمجھ کر اپنایا۔لاچار اور غریب لوگوں کا درد مجھے اس جانب کھینچ لایا تھا۔اس وقت ملک اور عوام کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے ظالموں کے کرتوتوں کا پردہ فاش کرنے کا عزم تھا اور میرا خود سے وعدہ تھا کہ ہرگز نہیں لکھوں گی میں ظالم کے قصیدے میرا قلم چلے گا توتلوار کی طرح (قانتہ تحریم)
مگرموجودہ صحافت میں کھرے بندے کا surviveکرنا جوئے شیر لا نے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس وقت تو میں اسے اس کے عزم پہ قائم رہنے کا کہہ کرچلا آیا مگر اس وقت سے اب تک من میں عجیب سی بے چینی ہے۔ جب میں نے اس کی باتوں پہ غور کیا تو اس کی ہر ہر بات سچ لگنے لگی اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ ٹی وی چینل یا اخبار کیسے غیر جانبدار ہو سکتا ہے جو ٹی وی چینل کے مالک نے اپنے غیر قانونی کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے بنایا ہو۔
Reportar
وہ صحافی کیسے سچ لکھ پائے گا جس نے ٹی وی چینل یا اخبارکی نمائندگی ہزاروں روپے کے عوض خریدی ہو ، جو اپنے علاقے میں غیر قانونی کام یا کاروبار کی رپورٹ اس لئے نہیں دیتا کیونکہ وہ اسے ہر ماہ باقاعدگی سے لفافہ پہنچا دیتے ہیں، بد عنوان افسران کی بدعنوانیوں کو اس لئے بے نقاب نہیں کرتے کہ انہیں بھی اپنے اقرباء کے ناجائز کام کروانا ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ان بڑی بڑی کمپنیوں کے غیر قانونی کاموں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے کیونکہ ان سے اشتہارات کی مد میںسالانہ کروڑوں روپے بٹورے جاتے ہیں۔
میں اس بندے کو صحافی کیسے کہوں جو خبر کے معانوں سے ناواقف ہے، جو خبر لکھنا نہیں جانتا، جو پریس کارڈ اس لئے بنواتا ہے کہ اسے ٹریفک پولیس نہ روکے۔ جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح سارے صحافی بھی اک جیسے نہیں۔بعض ایسے سر پھرے بھی ہیں جو کسی کو خاطر میں لائے بغیر، کسی لالچ یا دبائو میں آئے بغیر صرف اور صرف سچ لکھتے اور کہتے ہیں۔دراصل یہی لوگ صحافت جیسے مقدس شعبہ کی تکریم کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔مگرتشویشناک بات یہ ہے کہ صاف دامن صحافیوں کی تعداد لفافہ صحافیوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے جو مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی نازک ترین صورت حال کے پیش نظر تمام صحافتی اداروں، تنظیموں اور صحافیوں کو صحافت کا لبادہ اوڑھے کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا ہو گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکو نمائندگی فروخت کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دینی چاہیے جو حقیقی معانوں میں صحافت کو خدمت اور عبادت سمجھتے ہوں،اثاثے بنانے اور منتھلیاں لینے کی بجائے لالچ اور دبائو میں آئے بغیر تمام جرائم اور برائیوں سے پردہ اٹھانا ہو گا تاکہ معاشرہ میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جا سکے اور معاشرہ میں موجود بے راہ روی کو تلف کیا جا سکے۔