جونہی میرے علم میں معروف نوجوان صحافی، ممتاز تجزیہ نگار، ایکسپریس نیوز کے پروگرام کے اینکر پرسن طلعت حسین کی نگراں وفاقی وزیر اطلاعات بننے سے انکار کی خبر ملی تو بے حد خوشی بھی ہوا۔ بقول طلعت حسین کہ جمعہ کے روز 4:00 بجے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسہ کی انھیں نگراں وفاقی وزیر اطلات کی پیشکش کی گئی۔
جس سے انھوں نے شکریہ کے ساتھ معزرت کر لی ۔طلعت حسین نے کہاکہ صحافی کا کام تنقید، تحقیق اور تجزیہ ہے حکومت کرنا ہر گز نہیں ۔ صحافی کو ٹوپی گھما کر دوسری جانا زیب نہیں دیتا ، اگر صحافی کو سرکار میں شامل ہونا ہے تو صحافت چھوڑ دے۔ سینئر صحافی ، دی نیوز کے ایڈیٹر انو سٹی گیشن انصار عباصی نے طلعت حسین کی طرف سے وزارت اطلاعات کی پیشکش مسترد کرنے کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ طلعت حسین کے اس اقدام سے پروفیشنل صحافیوں کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
حکومتی نوکریاں و عہدے صحافیوں کے لیے نہیں ہیں اور صحافی اپنا اصل کام چھوڑ کر عہدوں و پُر کشش نوکریوں کے پیچھے بھاگنا شروع ہو گئے تو صحافت کون کرے گا ؟ یاد رہے کہ نگران وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی جیو نیوز کے صحافی ہیں۔نگراں وزیر اعلی پنجاب صحافی نجم سیٹھی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے لوگ زیادہ پاپولر ہو گئے ہیں جو صحافت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ن لیگ کے لئے نگران وزیر اعلی پنجاب کی انتخاب بھی بہت چیلنج تھا ، اچانک نگران وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی کو مقر ر کر کے اپنی سر کی درد کو تو ختم کر دی مگر نجم سیٹھی کی کردا د کو بھی بے پردہ کر دیا ۔ اکثر لوگ نجم سیٹھی کو امریکہ کے حامی اور سیکولر و مغربی نظام کے حامی تصور کرتے ہیں ۔ شاید ممکن ہو کہ سیٹھی جیسے سینئر صحافی ایسے ناپاک عزائم کا حصہ ہوں۔
Hazrat Umar Farooq
حضرت عمر فاروق خلیفہ دوئم بننے کے بعد رات بستر پر سونے کی کوشیش کرتے مگر ہمیشہ بے سکوں اور بے نیند ہی وقت کو گزارتے تھے ،رات کو اپنے حدود کی تمام گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے کہ کوئی انسان یا مسافر بھوک یا کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ایک شب انکی بیوی نے ان سے پوچھا کہ خلافت کے بعد آپ کو رات بھر نیند کیوں نہیں آتی ہے ؟ تو حضرت عمر فاروق خلیفہ دوئم نے جو اب دیا اس سے قبل میں ایک عام زمہ دار تھا مگر خلافت کے بعد پوری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زمہ داری میرے اوپر عائد ہے۔
حضرت عمر فاروق خلیفہ دوئم رات بھر بے سکوں رہتے تھے اس لئے کہ اس کی حکومت میں اگر کسی بھی غریب کے گھر میں کوئی مصیبت ہے یا کوئی تکلیف تو اس سے چھٹکارا دلانا حکومت کی زمہ داری ہوتی ہے۔
حکومت کرنے والے اپنی تکالیف کو نظر انداز کر کے اپنی رعایا کی خوشحالی و سکوں کا فکر کرتے ہیں نہ اربوں روپیہ کی بنگلوں و لاکھو ں کی کپڑے پہن کر حکومت کی کشتی پر مزے اٹھاتے جائیں۔
بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ کے سامنے قلم و علم سے جدوجہد کرنے والے مجاہدین کو بہت اہمیت ہے ۔ طلعت حسین نے نگران حکومت کی کشتی میں سوار ہونے سے انکار کرکے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ میرے بزرگ ہم شہری جسٹس میر ہزار خان کھوسہ نے وزیر اعظم کی کرسی کو قبول کر کے اپنے نظر و سوچ میں بھلے اچھا فیصلہ کیا ہو۔ مگر اس بات کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں موجودہ حالات انتہائی نازک ہیں آیا روز درجنوں عام بے گناہ شہریوں کو بم دھماکوں ، خود کش حملوں، ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ اپنی زندگی سے دست بردار ہو رہے ہیں۔
Inflation
لوگ مہنگائی و بے روزگاری کی وجہ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔ ہر طرف آ گ لگی ہوئی ہے ۔ کوئی شہر نہیں جہاں حکومتی زیادتیاں و لا پر وائیوں کی وجہ سے لو گ تکالیف سے دو چار ہیں۔ کہنے کا متن ہے کہ موجودہ حالات میں تقریباََ 18 کروڑ عوام تکالیف و پریشانیو ں میں مبتلا ہے۔
بھلے یہ تکالیف کسی اور کی دی ہوئی تحفہ ہوں مگر وقت کے حکومت کی زمہ داری ہوتی ہے کہ اپنی فکر کو چھوڑ کر اپنی رعایا کو ہر فرد کو سکوں ، سہولیات ، عزت فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ اور موجودہ حالات میں ایسا کرنا بہت بڑی چیلنج ہے۔
طلعت حسین نے مفت میں بڑے بڑے گنا ہ سمیٹنے سے انکار کر کے عقلمندانہ فیصلہ کی ہے ۔میرے نظر میں حکومت کی کشتی میں بیٹھ کر مفت کے مزے چکھنے والے حضرات بھی حضرت عمر فاروق خلیفہ دوئم کی دور ِ خلافت کو نظر ثانی کریں اور حکمران کی زمہ داریوں سمجھ لیں تو بہتر فیصلہ پیدا ہو جائے گا۔
واقعی میں اگر سوچا جائے تو ایک صحافی کا کام تنقید، تحقیق اور تجزیہ ہے ۔ حکومت کی غلطیوں کو درست کر وانا ہے حکومت کرنا ہر گز نہیں۔ تحریر: آصف یٰسین لانگو 03003802786