صحافتی مسائل اور اوورسیز پاکستانی رجرنلسٹ فورم

Journalism

Journalism

تحریر:۔ مبشر ڈاہر ۔ الریاض مملکت سعودی عریبیہ۔
عہد حاضر میں بالعموم پوری دنیا میں طرز حکومت جمہوری ہیں تو جمہوری طرزِ حکومت ریاست کے بنیادی ستونو ں میں مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے ۔صحافت چونکہ ایوان اقتدار تک عوامی مسائل کے ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہے ، عوام الناس کو ملکی حالات و اقعات سے آگاہی و شعور بخشتی ہے ۔ عوامی رائے کا تعین کرتی ہے ، عوامی مسائل سے حکومت کو آگاہی دیتی ہے ،اور حکومتی روز مرہ کے عوامل پر عوامی نگران کی حیثیت رکھتی ہے ۔اب تو صحافت کو اقوامِ عالم نے قومی تشخض کے تعین کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے ۔اور اقوامِ عالم اپنے تشخص کے بقا کی جنگ بھی ابلاغیات کے محاذوں پر لڑ رہی ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہے کہ آج کی مطلق العنان حکومتوں نے صحافت پر محتلف قدغنوں سے عملی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔جو صحافتی افادیت پر کافی اثر انداز ہورہی ہیں۔ان تمام تر قانونی پابندیوں اور مطلق العنانیت کے باوجود صحافت کی افادیت سے کوئی ریاستی شعبہ اور ادارہ انکاری نہیں ہے ۔ پوری دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی نے انقلاب برپا کیا ہے اس کے متوازی شعبہ صحافت نے بھی جدید دور میں انقلابی کروٹیں لی ہیں اور موجودہ دور میں بھی صحافت نے اپنی طاقت، قوت، افادیت اور اہمیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔

مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ پر نگران کی حیثیت رکھنے والا یہ عظیم شعبہ ہر آنے والی حکومت کی عدم توجیہی کا شکار رہتا ہے ۔ جس نے صحافیوں کی عملی زندگی میں ایک طرف تو ہوشربا معاشرتی ، بالخصوص معاشی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ فنی ذمہ داریوں کی ادایئگی کے حوالے سے بھی بیشتر مسائل سے دوچار ہیں اس مسائل میں سرفہرست صحافت کے حوالے سے مجوزہ بنیادی قوانین اور ضابطہ اخلاق کی عدم دستیابی اور متوازن چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں تقریبا صحافت حکومت اوربڑی بڑی پارٹیوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے ایسے میں عوام الناس کے مسائل کا ادراک اور حل انتہائی مشکل ہو چکا ہے ۔ اور میڈیا کی غیر جانبداری پر بھی عموما سوالات اٹھتے رہتے ہیں ۔ اور اسی سلسلے میں دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیا ؤسز کے لائسنس حکومتیں جاری کرتی ہیں اور پھر ان میڈیا کے گرد قانونی شکنجے بھی حکومتیں تیار کرتی ہیں اور ان پر قوانین کی موجودگی ہی آزادنہ رائے دہی اور رپوٹنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ صحافیوں کے ان تمام نجی معاشی و معاشرتی مسائل اور فنی ذمہ داریوں کی راہ میں حائل مسائل اور رکاوٹوں کا واحد کا حل صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو یکجا کر کے ایک پلیٹ فارم سے یک آواز ہو کر حکومتی ایوانوں اور ریاستی اداروں تک اپنی آرائ،آواز ، مسائل، اورشکایات کو پہنچانا ہے ، ایک انفرادی آواز کی بجائے ایک کمیونٹی ، ایک فورم ، پر اجتماعی رائے دہی کے ساتھ یک آواز ہو کر اس کا حل تلاش کرنا ہے ۔

Pakistan

Pakistan

اسی بنیادی اصول کی بناء پر گزشتہ دنوں پاکستان اور پوری دنیا میں موجود پاکستانی صحافیوں کی باہمی مشاورت سے اور پوری دنیا میں موجود پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ آواز کے طور پر ایک فورم کی بنیاد دبئی میں رکھی گئی اور اس فورم کو کا نام ” اوورسیز پاکستانی جرنلسٹ فورم” رکھا گیا۔اس فورم پر پاکستان ، یواے ای ، سعودی عریبیہ ، قطر، افریقہ ، یورپ ،امریکہ اور باقی دنیا میں موجود پاکستانی صحافتی برداری کو یکجا کیا گیا ہے ۔ ابتدائی تنظیمی مراحل سے گزرنے والے اس فورم کوانتہائی قلیل مدت میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ او۔پی۔ جے ۔ ایف۔ بنیادی رجسٹریشن اور ممبر شپ کے مراحل سے گزررہاہے۔ پاکستان میں تحصیل سطح سے لے تمام انٹرنیشنل مقامات جہاں پر بھی پاکستانی کمیونٹی موجود ہے او۔ پی۔جے ۔ ایف۔ کی ممبرشپ اور تنظیم سازی بڑے زوروشور سے جاری ہے ۔ اور اس فورم کے ساتھ اب تک تقریبا3500 سے زیادہ صحافی پاکستان سمیت پوری دنیا منسلک ہو چکے ہیں۔ ممبر شپ میں روزانہ کی بنیاد پر بدریج اضافہ ہو رہاہے ۔ رجسٹریشن اور ممبر سازی کے بعد اوورسیز جرنلسٹ کے زیر اہتمام دبئی اور پاکستان میں ” جرنلسٹ کنونشن ” کے انعقاد کی تیاریاں بھی چل رہی ہیں۔

بنیادی طور پر اوورسیز جرنلسٹ فورم کے قیام کا مقصد ساری دنیا میں موجود پاکستانی صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ان کے مسائل کا حل کرنا، اور نوآموز صحافیوں کی فنی تربیت وترویج کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے مسائل کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے والوں کی آواز بننا اور ان کو درپیش چیلنجوں اور پروفیشنل ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران درپیش مسائل اور رکاوٹوں کی تک رسائی حاصل کرنا اور ان رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونے کے طریقہ کو وضع کرنا ہے ۔ اندرون پنجاب ، رورل سندھ ، پلوچستان، کے ۔ پی۔ کے اور آزاد کشمیر میں صحافی ان گنت معاشرتی اور بالخصوص معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر روزمرہ کی بنیادی سہولتوں یومیہ گھریلو اخراجات، بچوں کی تعلیم ، صحت ،اور رہائش جیسے بنیادی مسائل کا شکار ہیں۔اور کسی حکومتی ادارے ، فورم ، پلیٹ فارم، تنظیم یا ادارے کی طرف سے ان کے ان بنیادی مسائل کاحل تو درکنار ان مسائل کو سننے اور جاننے کی بھی کوشش کبھی نہیں فرمائی گئی۔ان مسائل کے حوالے سے ہمیشہ سے ایوانِ اقتدار کی آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہیں۔ وہ بھی صرف میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی خوشنودی پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔او ۔پی ۔ جے ۔ ایف ۔ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بہتر فورم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ان تمام مسائل کے حل کے لیے بھی لائحہ عمل تیار کرنے کی طرف انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ درست سمت کی طرف گامزن ہے ۔

Overseas Journalists

Overseas Journalists

اوور سیز جرنلسٹ فورم کے قیام کے بنیادی مقاصد میں
• صحافتی ذمہ داریوں کو آزادانہ اور بلاروک ٹوک کے ادائیگی کے لیے فضا کو موزوں بنانا۔

• صحافی برادری کے نجی زندگی سے جڑے معاشی اور معاشرتی مسائل کا ادراک اور ان کا جامع حل پیش کرنا ۔

• صحافیوں کے لیے ضابطہ اخلاق اور صحافتی ذمہ داریوں کے دائرہ کار کا وضع کرنا۔

• صحافتی اقدار کے معیار وضع کرنا اورزرد صحافت کی حوصلہ شکنی کرنا۔

• معیاری صحافت کے فروغ،اس کی افادیت ،اس کی ڈومین ۔ اخلاقی دائرہ کار ۔ملکی سلامتی کے حوالے سے صحافتی حدود وقیود کے لیے ایک متوازن اور جامع طریق کو وضع کرنا ہے ۔

• صحافیوں کو پروفیشنل ذمہ دارویوں کی ادائیگی کے دوران حائل مشکلات کو اکھٹا کرنا اور پھر ان کا حل پیش کرنا۔

• صحافت سے جڑے افراد ، ان کی فیملیز اور بچوں کے بہترمستقبل کے حوالے سے جامع لائع عمل تیار کرنا۔

• حکومتی قدغنوں اور قوانین کی موجودگی میں عملی صحافت کے لیے قوانین اور رپوٹنگ کے درمیان موثر تطبیق پیدا کرناہیں۔

میں تمام صحافتی برادری سے ملتمس ہوں کہ وہ اس بین الاقوامی اہمیت کے حامل فورم کا حصہ بن کر اپنے صحافی بھائیوں کا دست و بازو بنیں اور صحافیوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اور ان کے حل میں اپنی کاوشیں ضرور شامل فرمائیں۔اس سلسلے میں تمام احباب میرے دئیے گئے ای میل mobushirdahr@gmail…com پر بھی رابطہ فرما سکتے ہیں ۔

Mubashar

Mubashar

تحریر:۔ مبشر ڈاہر ۔ الریاض مملکت سعودی عریبیہ۔