کراچی میں صحافیوں کے لیے منعقدہ ورکشاپ کی روداد‎

Bazme Ahle Qalam

Bazme Ahle Qalam

کراچی (خالد بن سلام) پاکستان کی جامعات میں سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ زیرِ تعلیم نوجوانوں کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبہ جات کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ اس کام کے لیے دعوة اکیڈمی کے نام سے ایک الگ شاخ بنائی ہوئی ہے، اس کے زیرِ اہتمام ملک کے دیگر حصوں میں دعوة سینٹر قائم ہیں۔ جن میں کراچی کا ریجنل دعوة سینٹر (سندھ) بھی شامل ہے۔ ریجنل دعوة سینٹر (سندھ) کراچی کا قیام 2002ء میں عمل میں لایا گیا۔جہاں اب تک مختلف موضوعات پر 110 پروگرامات منعقد کیے جا چکے ہیں۔ جن سے سات ہزار شرکاء مستفید ہو چکے ہیں۔دعوة سینٹر کا امتیاز ہے کہ یہاں افراد کوبغیر کسی لسانیت، فرقہ واریت اور مذہبی و مسلکی بنیاد کے پروگرامات میں شریک کیا جاتا ہے۔

دعوةاکیڈمی کے تحت 21 جنوری کو 4 روزہ نویں اسلامی تربیتی پروگرام کا آغاز ہوا۔ یہ پروگرام صحافت سے منسلک افراد کے لیے خاص تھا۔ کراچی کے علاوہ اس میں اندرون سندھ بلوچستان سے بھی صحافیوں نے شرکت کی۔ اگرچہ یہ اسلامی تربیتی پروگرام تھا مگر اس کے باوجودشکارپور نوئے وقت کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہندو مذہب کے پیروکار گوکل داس نے بھی شرکت کی۔ دعوة سینٹر کراچی کے انچارج ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن نے شرکاء کو مرحبا کہا۔ افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی چیئرمین ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی پروفیسر انوار احمد زئی اور ریڈیو پاکستان سے خلیل احمد مدعو تھے۔

خلیل احمد نے افتتاحی تقریب کے دوران شرکاء کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ذمہ دار صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنیادی اصول و ضوابط کو مدنظر رکھے۔ اپنے اختیارات او اخلاقیات سے تجاوز نہ کرے۔ انہوں نے تجربے اور ڈگری کی اہمیت کو بھی نہایت عمدہ الفاظ میں بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈگری کو تجربے کی کسوٹی پر رپرکھا جاتا ہے جبکہ تجربہ نہ ہونے پر ڈگری اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔پروفیسر انوار احمد زئی نے اپنی گفتگو میں علمی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور پاکستان کی تاریخ کے متعلق اہم انکشافات کیے۔

ورکشاپ کے تیسرے اور چوتھے سیشن کا موضوع نفسیات اور صحافت تھا۔ جن کے لیے ماہر تعلیم منیر احمد راشد کو مدعو کیا گیا۔ نفسیات کو گفتگو کو موضوع بناتے ہوئے انہوں نے شرکا کا نفسیاتی جائزہ لیا اور باور کرایا کہ انسان کے تخیلات کی ایک الگ دنیا ہے ہر انسان اپنی نفسیات کے مطابق سوچتا ہے اور بات کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافت صحیفہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ صحیفہ سے مراد اصل اور حقیقی علم پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ حقائق کو دوسروں تک منتقل کرنے کے ذرائع وقت ے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ماضی میں کتابت و خطابت صحافت کے ذرائع تھے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کرتا گیا اور اب کتابت و خطابت کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور دوسروں کے خیالات و احساسات حاصل کرنے کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ انہوں نے انسانی فطرت، خیر و شر کے عوامل اور نفسانی محرکات پر بھی روشنی ڈالی۔

اسی طرح ورکشاپ کے دوسرے دن پہلا سیشن ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈہ کے موضوع پر تھا ۔جس کے لیے وفاقی جامعہ اردو کراچی کے پروفیسر سلیم مغل کو مدعو کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر دور میں پروپیگنڈے کو دشمنوںکے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام دشمن عناصر غیر محسوس انداز میں اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کے اذہان بدل رہے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے سیشن کے لیے محمد بشیر جمعہ کو دعوت دی گئی تھی جنہوں نے شرکا کو ٹائم مینجمنٹ کے بارے میں آگہی دی۔ان کا کہنا تھا کہ انسان ہیرے و جواہرات کی مثال ہیں مگر اسے تراشنے کی ضرورت ہے۔اپنے اوقات کو بہتر انداز میں استعمال کر کے ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔

ورکشاپ کے چوتھے سیشن میں دعوة سینٹر کراچی کے انچارج سید عزیز الرحمٰن کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے قلم کی حرمت اور اس کے تقاضے بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری انسانیت اللہ کے ہاں برابر ہے اور سب جوابدہ ہیں۔ اپنے آپ کو دوسرے انسان سے بہتر جاننا انسان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ صحافت و ادب کا یہ جز لازم ہے کہ لکھنے کا سلیقہ اور اپنے قلم کا مقام کا پتا ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ قلم کا فارمیٹ تبدیل ہوتا رہا ہے لیکن حقائق بیان کرنا حقیقت جان کر اس کی گہرائی میں اتر کر بیان کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پھاوڑے اور قلم کی اہمیت میں فرق لازم ہے اسے چلانے کا فن حاصل کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ قلم کی زندگی تاریخ بن جاتی ہے اس پر چلنا قومیں اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہیں۔

تیسرے روز کے پہلے سیشن کے بعد میڈیا کا ضابطہ اخلاق پر مذاکرہ منعقد کیا گیا تھا۔ جس کے لیے کراچی یونیورسٹی شعبہ ماس کمیونیکیشن کے انچارج ڈاکٹر محمود غزنوی، پاکستان ٹیلی ویڑن کے پروڈیوسر غلام مصطفیٰ سولنگی اوردعوة اکیڈمی کے انچارج ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن نے حصہ لیا۔مذاکرے کے شرکا سے پہلے شرکا کو میڈیا کے ضابطہ اخلاق پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اظہار رائے اور آزادی کی کچھ قدریں ہوتی ہیں ہمیں اپنی اخلاقی اقدار اور حدود میں رہتے ہوئے لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں میڈیا نے ہمارے کلچر، تہذیب اور روایات کو تباہ کر دیا ہے اور اچھائی اور برائی میں کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔

میڈیا پرسن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملکی، قومی اور لوگوں کے حقوق کے لیے شائستگی کے ساتھ کام کریں۔ مذاکرے کے دوران ڈاکٹر محمود غزنوی نے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے ہر دور میں ضابطے بنتے آرہے ہیں لیکن عملاََ کسی پر کام نہیں ہو رہا، اب تک 18 ضابطے بن چکے ہیں۔ پیمرا کے قانون کے مطابق غیر مصدقہ خبر، غیر اخلاقی تصاویر اور اشتہارات شائع کرنا جرم ہے جب کہ ہمارے ہمارے ہاں یہ اس کی خلاف ورزی پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ بریکنگ نیوز اور رننگ کمنٹری میں فرق ہونا چاہیے۔ بعد ازاں انچارج ریجنل دعوة سینٹر ڈاکٹر سید عزیزالرحمن نے شرکا سے گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ کہ آج کے عالمگیریت والے معاشرے میں صحافیوں کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صحافی خبروں کو سچائی اور حقائق کی روشنی میں بنائیں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ انہوں نے میڈیا پرسنز سے مخاطب ہوطے ہوئے کہا کہ ہمارا آپ کو یہاں جمع کرنے کا اصل مقصد معاشرے میں صحافیوں کا خالص چہرہ لانا مقصود ہے۔

چوتھے سیشن کا آغازمعروف کالم نگار انور غازی کو دعوت دی گئی جس میں انہوں نے شرکا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے لیکچر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں خبر کے لیے ضابطہ اخلاق بیان کیا گیا ہے۔ خبر کو شائع کرنے کے لیے وقت کی مناسبت کا خیال ضروری ہے۔ معروضیت خبر کے بنیادی عناصر میں سے ہے۔ خبر کے حقائق کو غیر جانبداری سے پیش کیا جائے اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ کی جائے۔ورکشاپ کے شرکاء کو پاکستان ٹیلی ویژن اور سندھ ٹی وی کی عمارت کا بھی دورہ کروایا گیا۔اس موقع پر اسٹوڈیوز اور ماسٹر کنٹرول روم کا دورہ کروانے لیے پروڈیوسر غلام مصطفیٰ سولنگی نے رہنمائی کی بعد ازاں انہوں نے کانفرنس حال میں پی ٹی وی کے کام کے طریقہ کار پر بریفنگ بھی دی۔

سندھ ٹیلی ویژن میں معروف اینکر اور ٹیلی ویژن ہوسٹ فیاض نائچ نے شرکاء کا استقبال کیا۔ 19جنوری کو شروع ہونے والے پروگرام 22جنوری کو اپنے اختتام کو پہنچا۔پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد چنا نے تربیتی پروگرام کی مفصل رپورٹ پیش کی۔ اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی ملک کے نامور دانشور اور کالم نگار محمود شام تھے۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دعوة اکیڈمی لائق تحسین ہے کہ وہ ایسے تربیتی پروگرام کا اہتمام کرتی ہے ۔جہاںصحافت سے تعلق رکھنے والے نوجوان حقائق اور معلومات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پرسن کو معاشرے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔میڈیا پرسنز معاشرے کی روایات، اقدار، دین کے شعائر، ملک و قوم کے دستور کا خیال رکھتے ہوئے سچائی اور حقائق کو سامنے لائیں۔

انچارج ریجنل دعوة سینٹر ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کے اختتامی کلمات میں کہا کہ شرکاء نے جو کچھ یہاں سیکھا ہے وہ دوسروں کو بھی سکھائیں۔ اپنے پیشے میں لوگوں کی بھلائی کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے۔ پروگرام کے شرکاء میں سرٹیفکیٹ اور انعامات اور ادارے کی جانب سے کتب کے تحائف تقسیم کیے۔

[email protected]
03331280755