کائنات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو رَب رحمٰن کے فضل وکرم کی برسات کے سوا کچھ نہیں ہے ،اُس پاک ذات کی بے شمارعنایات اورفضل وکرم اَن گنت صورتوں میں عیاں ہیں جن میں جسم و جان، ماں باپ،اُولاد ،مال دولت اورملک وسلطنت وغیرہ شامل ہیں ۔زندگی کے مدارمیں گومتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے لطف اندوزہوتے ہوئے بھی انسان تب تک بے قراررہتاجب تک اللہ تعالیٰ کا حقیقی فضل وکرم نصیب نہ ہوجائے۔اہل علم و دانش کے نزدیک اللہ تعالیٰ کاحقیقی فضل وکرم ابنیاء اکرام ہیں جبکہ احسان عظیم ہیں اللہ تعالیٰ کے محبوب وآخری نبی حضرت محمد ۖ ،جن کی تعلیمات اورپاکیزہ صحبت نے جہالت میں ڈوبی انسانیت کوحسن معاشرت کے سنہری اُصولوں میں پرودیا،روحانی و جسمانی بیماریوں سے نجات دلاکر صحت مند معاشرے کی بنیادرکھی،انبیاء اکرام کی صحبت پانے والے بااَدب خوش نصیب بلند وبالامقام پاچکے۔ رسول اللہ ۖ پراللہ تعالیٰ نے نبوت کاسلسلہ ختم فرماکربھی ہمارے لئے آل رسول اللہ ۖ اورُاولیا اللہ کی صورت میں خاص فضل وکرام کے دروازے کھول رکھے ہیں۔بااَدب لوگ آل رسول اللہ ۖ واُولیا اللہ کی صحبت اختیارکرتے ہیں اوراُن میں خوش بخت ہیں وہ جواللہ تعالیٰ کے احسانات و کرامات کاشکراداکرتے اورعنانات پرخوشی کا اظہار کرتے ہیں
پسر نوح بابداں بہ نشت خاندان نبوتش گم شد سگِ اصحاب کہف روزے چند پئے نیکاں گرفت مردم شد
ترجمعہ”حضرت نوح علیہ اسلام کا بیٹابُروں کے ساتھ بیٹھا توخاندان نبوت سے باہرہوگیااوراصحاب کہف کا کتانیکوں کے پیچھے چلاتومقام آدمیت حاصل کرگیا”سبق یہ ملتاہے کہ بُروںکی صحبت اختیارکرنے سے نبی کی اولادکاشمارکافروں میں ہوجاتاہے اورکتانیکوں کے پیچھے چل پڑے توبڑامقام پالیتاہے،خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کواللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی صحبت نصیب ہے۔راقم اس لحاظ سے بہت خوش بخت ہے جسے آل رسول ۖ کی سرپرستی نصیب ہے۔ مرشِد جانی عظیم روحانی پیشوا،حضرت سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست بابا معراج دین کی زندگی کا ہر پہلونہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ قابل فہم و عمل بھی ہے۔سالگرہ کے متعلق علماء کرام کی رائے مختلف ہے۔
کسی کے خیال میں سالگرہ مناناجائزہے جبکہ کسی کے مطابق سالگرہ غیر مسلم رسومات میں سے ہے۔11اگست کے دن حضرت سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست کایوم ولادت ہمیں ہرسال یہ درس دیتاہے کہ سالگرہ کے دن خوشی کااظہارکرناجائزہے جبکہ اس روزغیرشرعی حرکات کی بجائے اللہ تعالیٰ کاذکر،رسول اللہ ۖ کی خدمت میںدرود و اسلام کے نذرانے پیش کرنا،مخلوق کی بھلائی کرنا،اللہ تعالیٰ کی راہ میں لنگر تقسیم کرنا،امت مسلمہ ،ملک وملت،والدین،خود،بیوی بچوں،بہن بھائیوں،عزیزوں،دوستوں،ہمسایوں اوراللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کے حق میں دُعائوں کااہتمام کرناحقیقی خوشی کاباعث بنتاہے۔ آج 11اگست درویش وقت عظیم روحانی پیشواسیدعرفان احمد المعروف نانگامست بابامعراج دین نے اپنے یوم ولادت پراپنے پیرومرشِد باباجی حضرت عبدالغنی چشتی سرکار،باباجی حضرت محمد علی مست سرکار اورداتاحضورکی خدمت میں حاضری پیش کی اورلنگرتقسیم کیا،اُمت مسلمہ،پاکستان ،قوم،افواج پاکستان کیلئے،خاص طورپرسودی نظام کے خاتمے اورپاکستان میں دین اسلام کے پاکیزہ نظام کے نفاذ کیلئے دُعافرمائی،آپ نے فرمایاکہ ایک مسلمان کسی بھی حالت میں سود پسندنہیں کرتا،حق تویہ ہے کہ سودی نظام کے خاتمے کیلئے ہرفرداپناکرداراداکرے۔درویش وقت نے اپنے یوم ولادت کے موقع پرعبادات ،بزرگان حق کے آستانوں پرحاضری،تقسیم لنگراوردُعائوں کااہتمام کرکے ہمیں عملی درس دیاکہ خوشی ناچ ،گانے،کیک کاٹنے،رشتہ داروں کو گھر بلاکر خوب ہلا گُلا کرنے یادیگر فضول کاموں میں وقت اور پیسہ ضائع کرنے کا نام نہیں بلکہ سالگرہ سمیت ہر خوشی اور غم کے وقت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہۖ کوزیادہ سے زیادہ یاد کرنا چاہئے۔
خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں لنگر تقسیم کرنے والے کے رزق میں برکت ہوتی ہے اور لنگر کھانے والوں کے رزق میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں خوشی کے اظہار کیلئے مختلف قسم کے طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں جن میںناچ گانا،شراب نوشی،اسلحہ کی نمائش اور استعمال ،فحش گفتگواور لباس ،بلند آواز میں میوزک،شامل ہیں،یہ تما م چیزیں غیراسلامی ہی نہیں بلکہ غیراخلاقی بھی ہیں ، سید عرفان احمد صاحب نے اپنے یوم ولادت کے موقع پر درس دیاکہ ہر وہ چیز جو قرب الٰہی سے نکال کر جہالت کے اندھیروں کی طرف گامزن کرے وہ کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں ، ہم اس دنیا میں کچھ وقت کیلئے مہمان ہیں ،ہماری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے ،آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو تاکیدفرمائی کہ پانچ وقت نماز پڑھا کرو،رسول اللہ ۖ کی ذات اقدس پر درود واسلام بھیجا کرو،آپ ۖ کی آل سے اُسی انداز میں محبت کیا کروجیسا سرکاردوعالم ۖ کا فرمان عالی شان ہے،اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے آستانوں پر ادب اور احترام سے حاضر ہوا کرو،والدین سے شفقت اور محبت سے پیش آیاکرو۔اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ۖ،انبیا کرام، اُولیا اللہ اُن لوگوں کوپسند نہیں کرتے جو والدین کے گستاخ ہوں یا والدین کی خدمت اور احترام میں کمی کرتے ہیں ،جنت اور جہنم کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ہے پر اس دنیا میں اُن لوگوں پراللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں جو والدین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
والدین کی گستاخی کومعاشرے میں بہت معمولی خیال کیا جاتا ہے،خاص طو ر پر نوجوان نسل والدین کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایسا لہجہ اختیار کرتی ہے جو انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی والدین کے ساتھ دوستی ہے،یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ والدین اپنے بچوں کے بہترین اورمخلص دوست ہوتے ہیں اور اولاد کی ایسی باتوں پر بھی درگزر سے کام لیتے ہیں جو گستاخی کے زمرے میں آتی ہوںپر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُن کی عزت و توقیر میں کمی کردی جائے ،اُن کامقام ہرصورت اعلیٰ و ارفع رہتاہے چاہے وہ اولاد کے اچھے دوست ثابت ہوں یا نہ ہوں ،ترقی یافتہ دورکا انسان دنیا کی تمام نعمتیں پالینے پر بھی بے چین و بے قرار نظر آتا ہے جس کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری،حقوق والدین کی ادائیگی میں غفلت برتناہے،راقم نے اپنے مرشِد”سید عرفان احمد المعروف نانگامست بابامعراج دین کی صحبت نصیب ہونے کے بعد یہ شدت سے محسوس کیا ہے کہ جو علم و دانش اُولیا اللہ کی صحبت میں نصیب ہوتا ہے وہ کتابوںکے مطالعہ اور تقریروں سے نہیں ملتا ۔شاہ صاحب کی سالگرہ کی حقیقی خوشی میں شامل ہوکرجورہنمائی کے عملی سُچے موتی اور انمول ہیرے عنایت ہوئے اُن کواپنی ذات تک محدود رکھنا انتہائی نا انصافی سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کی نظر کردیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین سے محبت،شفقت اور احترام کاسلوک کرنے اور ہر لمحہ اُن کی خدمت کرنے کی توفیق و طاقت، اُولیا اللہ کی صحبت اور اُن کا اَدب و احترام کرنا نصیب فرمائے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com. 0315417470