ایک معاصر قومی اخبار کی ایک مستند رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ” فیصلہ دو سے تین روز میں سنائیں گے،پورے واقعے میں جج کے کردار کا تعین ہوگیا،ارشد ملک کے کردار کی وجہ سے ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے،عجیب جج ہیںفیصلے کے بعد مجرموں کے گھر چلے جاتے ہیں،کیا جج ایسا ہوتا ہے کہ سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جائے ؟جو ایک بار بلیک میل ہوا،وہ دوبارہ بھی ہو سکتاہے،اِن کے کردار کے حوالے سے عدلیہ کی حد تک معاملہ ہم خود دیکھیں گے،ارشد ملک کو واپس نہ بھیج کر تحفظ دیا جارہا ہے،اُن کی خدمات فوری طور پر لاہور ہائی کورٹ کو واپس کی جائیں،لاہور ہائی کورٹ اِن کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ویڈیو کیس میںپیش کی گئی تونواز شریف کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے”۔منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمرعطا بندیال پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان اورڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ”تحقیقات مکمل کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دیا گیاتھا،اِس رپورٹ میں دو ویڈیو کا معاملہ تھا،ایک وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا،دوسری وہ جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی”۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ”کیا پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ارشد ملک کی ویڈیو کا فرانزک تجزیہ کیا گیا” ؟اِس پر ایف آئی اے کے نمائندے نے بتایا کہ” ویڈیو ہمارے پاس نہیں”،اِس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے کہاکہ”وہ ویڈیو سوائے ایف آئی اے کے پورے پاکستان کے پاس ہے،سارا پاکستان اور عدالت ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ ویڈیو اصلی ہے یا نہیں”؟ڈی جی ایف آئی اے نے کہا ”اصل ویڈیو موجود نہیںاور کاپی سے اصلیت کی تصدیق نہیں ہوسکتی”چیف جسٹس نے کہا کہ ”اب تو اتنی مہارت آگئی ہے کہ کاپی سے ویڈیو کے چھ رخ سامنے آجاتے ہیں،یہ دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی کاپی کا فرانزک ہوسکتاہے یا نہیں،یہ بھی دیکھناہے کہ یو ٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے کہ نہیں”۔سربراہ بینچ نے استفسار کیا کہ”ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کروایاتھا،کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کروایا تھا”۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ”ارشد ملک کی تعیناتی والا مبینہ شخص سامنے نہیں آیا ”۔اِس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ”اِس کا مطلب ہے اُس وقت کی حکومت نے پانامہ فیصلے کے بعد ارشد ملک کی تعیناتی کی”،اٹارنی جنرل نے کہا ”جج ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تعیناتی 13 مارچ2018 کو ہوئی”،ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ”جج ارشد ملک فیصلے کے بعد دوبار عمرہ پر گئے،بعض معلومات کھلی عدالت میں نہیں دے سکتے”،اِس پرسربراہ بینچ نے اٹارنی جنرل سے کہا ”آپ رپورٹ پڑھ لیں،جو حصے آپ نہیں پڑھنا چاہتے ،نہ پڑھیں”،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ”میاں طارق محمود نے قابل اعتراض ویڈیو ملتان میں 2000ء اور2003کے درمیان بنائی”۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ”کیا قانونی فائدہ اٹھانے کے لیے کسی عدالت میں کوئی درخواست دی گئی؟”اِس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ”کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی”،اِس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ”نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی،اِس معاملے میں کورٹ آف اپیل کیا طریقہ کار اپنائے گی یہ اُس کا معاملہ ہے، لیکن جب تک اِس ویڈیو کو عداالت میں پیش نہیں کریں گے ،اِس کی قانونی حیثیت طے نہیں ہوگی،سزا وجزا پر اِس کے اثرات بعد کے معاملات ہیں”،چیف جسٹس نے کہا”قابل اعتراض ویڈیو کاتو جج نے بھی اعتراف کیا لیکن جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی وہ اصل ثابت کیسے ہوگی”؟رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی جبکہ پریس کانفرنس کے دوران ویڈیو کا سب ٹائٹل بھی چل رہا تھا،لگتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیلا ہے اور وہ ہی اصل آدمی ہے جواِس سارے معاملے کے پیچھے ہے”،اِ س پر اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایاکہ” شہباز شریف نے ویڈیو سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور مریم نواز نے سارا ملبہ ناصر بٹ پر ڈال دیا ہے،خواجہ آصف اور احسن اقبال نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے”۔چیف جسٹس نے کہا”اصل معاملہ یہ ہے کہ جج صاحب کو کوئی بلیک میل کر رہاوہ کون ہے،اِس بارے کوئی تفتیش ہوئی یا نہیں”،اٹارنی جنرل نے کہا ”جب تک اور چیزیں سامنے نہیں آئیں گی ،کچھ نہیں کہا جاسکتا،اِس سارے معاملے کے اصل کردار ناصر بٹ اور سلیم رضادونوں ملک سے باہر ہیں۔
ناصر بٹ برطانوی شہری ہے اور سلیم رضا ٹریس نہیں ہورہا”،اٹارنی جنرل نے کہا ”اِس معاملے کو سائبر ایکٹ کے تحت دیکھا جاسکتا”،جس پر چیف جسٹس نے کہا”سائبر ایکٹ جانے اور آپ ،لیکن جج نے ساری چیزیں مانی ہیں،پتا نہیں انہیں یہ کس نے مشورہ دیا تھا،سربراہ بینچ نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”آپ کے لیے یہ ایک معمولی لیکن ہمارے لیے غیر معمولی معاملہ ہے،جج کی حد تک عدلیہ خود اِس کو دیکھے گی”،جسٹس آسف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے کہا”جج ارشد ملک کو احتساب عدالت سے فارغ کرنے کے بعدوفاقی حکومت اُس سے کیا لینا چاہتی ہے،تنخواہ ہی لے رہا ہے ،اُسے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیج دیںتاکہ ہائی کورٹ اُن کے کنڈکٹ کا معاملہ طے کردے،”چیف جسٹس نے کہا”ایک ایسا جج جس کاکردار داغ دار ہے ،انہوں نے خودتسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے ،واپس ہائی کورٹ نہ بھیج کر انہیں فائدہ دیا جارہا ہے،یہ ایک حاضر سروس جج کا معاملہ ہے،جو حکومت کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اُسے واپس ہائی کورٹ بھیج دیں”،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ”یہ ایک خطرناک صورتحال ہے ،ایسے ماضی کے ساتھ تو کوئی بھی جج بلیک میل ہو سکتا،ہر کیس پر بلیک میل ہوسکتا،کل قابل اعتراض ویڈیو کسی اور کے پاس تھی تو وہ بلیک میل ہوتا رہا،آج حکومت کے پاس آگئی ہے تو حکومت بھی اُسے بلیک میل کرسکتی ہے،آپ اپنا کام کریں اور ہمیں تجاویزدیں کہ اِس معاملے کونمٹائیںیا اپنے پاس رکھ کر تفتیش کی نگرانی کریں۔
ماضی میں بھی ہم نے تفتیش کی نگرانی کی ہے”،چیف جسٹس نے کہا ”جب ہم نگرانی کرتے ہیں تو اعتراض،نہ کریں تو اعتراض،ہم کریں تو کیا؟کم از کم جج کی گفتگوکی ویڈیو کی جو نقل دستیاب ہے،اُسے تجزئے کے لیے بھیج دیں،اگر تجزیہ نہیں ہوسکتا تو متعلقہ ماہر لکھ کر بتا دیںگے، جب اِس ویڈیو کی اصلیت کی تصدیق ہوجائے گی تب یہ طے ہوگا کہ جو پہلے ہوچکا اس سے سزاوجزا پر کیا اثر پڑے گا”اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ جج کی گفتگو کی موجودہ ویڈیو تجزیہ کے لیے بھیج دی جائے گی،درخواست گزار وکیل اکرام چوہدری نے معاملے میںانکوائری کمیشن قائم کرنے کی استدعا کی،جس پر چیف جسٹس نے کہا”کمیشن بھی رائے دے گااورعدالت کسی کی رائے کی پابند نہیں”چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ” ہم دوتین دنوں میں درخواستوں کا فیصلہ سنادیں گے”۔اِدھرعدالت کی طرف سے دی گئی ڈیڈلائن کے باوجود ایف آئی اے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات مکمل نہ کرسکی،عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی 105 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایف آئی اے کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ”ویڈیو سکینڈل کیس کی تحقیقات جاری ہیںاور مریم نواز نے سارا ملبہ ناصر بٹ پر ڈالنے کی کوشش کی اور خود کو ویڈیو سکینڈل سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی ”،رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ،صدرمسلم لیگ ن شہباز شریف سے سوالات کیے کہ مریم نواز کا مخاطب کون سا ادارہ تھا؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ ”پریس کانفرنس کا مخاطب کون تھا یہ مریم سے پوچھیں”،شہبازشریف کا کہنا تھا ”جج کی ویڈیو کا مریم صفدر سے علم ہوا،جج کی قابل اعتراض ویڈیو دیکھی نہ اِس کا علم ہے”۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے بتایا کہ ”مریم صفدر نے آڈیو ، ویڈیو الگ الگ ریکارڈ کرنے کا بتایا،تاہم ناصر بٹ کے ساتھ موجود شخص کو نہیں جانتا”،شہباز شریف کا بیان میںکہنا تھا کہ ”پریس کانفرنس سے چند گھنٹے پہلے مریم نے ویڈیو کے متعلق بتایا”۔ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے” جج ارشد ملک کی 2003ء کی قابل اعتراض ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروالیا ہے جو کہ اصل اور درست ثابت ہوئی ہے،جج ارشد ملک نے دو ماہ میں دو عمرے کیے،23 مارچ سے04 اپریل 2019تک جج ارشد ملک سعودی عرب میں رہے جبکہ 28 مئی سے 08 جون تک پھرسعودی عرب میں رہے”رپورٹ میں بتایا گیا کہ جج ارشد ملک نے جواب میں بتایا کہ ”یکم جون2019 ء کو مدینہ کے اوبرائے ہوٹل میںحسین نواز نے اُن سے ملاقات کی،حسین نواز نے 5 سو ملین رشوت اور فیملی کو برطانیہ اور کنیڈا میں سیٹل کرنے کی آفر کی”جج ارشد ملک نے بتایا کہ”رشوت کی آفر کے بدلے استعفیٰ دینے کی ڈیمانڈ کی گئی جوقبول نہ کی،ناصر جنجوعہ اور مہر غلام جیلانی نے جج ارشد ملک کو رشوت کی آفر کی”،رپورٹ کے مطابق ریفرنس کے فیصلے کے بعددونوںنے جج ارشد ملک کو دھمکیاں دیںاور بلیک میل کیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جج ارشد ملک کو ناصر جنجوعہ نے ملتان والی ویڈیو نہیں دکھائی،کیونکہ ٹیم نے جب جج ارشد ملک سے سوال کیا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے انہیں ملتان والی ویڈیو دکھائی ؟ تو جج کا کہنا تھا کہ ”ناصرجنجوعہ نے انہیں ملتان والی ویڈیو نہیں دکھائی”،رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اپنی درخواست اور بیان حلفی میں ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرنے کا کہا،ایف آئی اے کے مطابق ”ارشدملک کے گھرپر میاں طارق نے جج ارشد ملک کو ملتان والی ویڈیو دکھائی”رپورٹ میں بتایا گیا کہ 07 جولائی 2019 کو پریس کانفرنس میں موجود احسن اقبال، خواجہ آصف ،عطااللہ تارڈ سے بھی تفتیش کی گئی۔
تینوں نے شہباز شریف والا موقف اپنایا،رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کی ویڈیو ناصر بٹ نے اُن کے گھر بنائی، رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے مریم نواز کو 41 ،شہبازشریف کو36 ، خواجہ آصف اور عطااللہ تارڈ کو 22,22 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ بھیجا،جبکہ جج ارشدملک کو دو سوال نامے بھیجے گئے،پہلی بار 60 اور دوسری بار 67 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ بھیجا گیا،رپورٹ کے مطابق مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا ”جج ارشد ملک کی 16 سال قبل بنائی گئی ویڈیو نہ دیکھی ،نہ حاصل کی”مریم نواز نے اپنے جواب میں بتایاکہ ”معاملے کا ایک کردارناصربٹ ن لیگ لندن کا سینئیرنائب صدر ہے،تاہم اُن کا ناصر بٹ سے رابطہ کم رہتاتھا،جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے کے لیے ناصر بٹ کو نہیں کہاتھا،ناصر بٹ نے اپنی مرضی سے ویڈیو بنائی،جو ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی،وہ ایڈڈ نہیںتھی،ناصر بٹ نے جج ارشد ملک کی ویڈیو اُس دن مجھے دی ،جس دن نوازشریف جیل جارہے تھے،مجھے ناصر بٹ نے ایک بغیر سم موبائل فون کے ذریعے ویڈیو فراہم کی،ویڈیو کی اصل کاپی ناصر بٹ کے پاس ہے ،میرے پاس نہیں”۔رپورٹ کے مطابق میاں طارق کو ویڈیو کے عوض دی گئی لینڈکروزر کا انجن اور چیس نمبرٹیمپرڈ ہے اور میاں طارق کو دیا گیا 13 ملین کا چیک ابھی تک برآمد نہیں ہوا، رپورٹ میں ایف آئی اے نے کہا ”ناصر بٹ کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا”۔# ٰ