اسلام آباد (جیوڈیسک) ججز کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر وکلا میں تقسیم سامنے آ گئی۔ پنجاب بار کونسل کے سیکریٹری شاہد گوندل کی زیرصدارت اسلام آباد میں وکلاء ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب بار کونسل سمیت کئی بار ایسوسی ایشنز کے نمائندے شریک ہوئے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے میں شخصیت کی نہیں رول آف لاء کی پیروی کرنی ہے، ہمارا مقصد بےلاگ احتساب ہے اور ہمیں شخصیت کو نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط دیکھنا ہے، آئین ججز کے احتساب کا فورم مہیا کرتا ہے۔
سینیئر ممبر سپریم کورٹ بار رائے بشیر کھرل نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس بھیج کر آئینی ذمہ داری نبھائی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، جج بچاؤ تحریک نہیں چلائیں گے نہ ہی کسی جج یا سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے۔
صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کے موجودہ صدر 2007 کی وکلاء تحریک کے وقت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے وکیل تھے۔
پنجاب بار کونسل وکلاء ایکشن کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کا احتساب ہوسکتا ہے، قانون سے کوئی بالاتر نہیں چاہے جج ہی کیوں نہ ہو۔
شرکاء نے صدر سپریم کورٹ بار کے اعلان سے لاتعلقی کا اعلان کیا جب کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی رکنیت معطل کرنے کی مذمت بھی کی گئی۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن امان اللہ کنرانی وکلاء کا اوپن ہاؤس اجلاس بلائیں اور ان سے فیصلہ لیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل اور چاروں صوبائی بار کونسلز کا اہم اجلاس سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوا تھا۔
اجلاس میں ملک کی تمام صوبائی بار کونسلز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی 14 جون کو سماعت کے موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا۔
پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے اجلاس میں وزیرقانون سینیٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی مذمت کی گئی اور دونوں سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کےخلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔
اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو دو خط لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔