تحریر : ایم سرور صدیقی خبر کیا ہے قیامت ہے ۔۔۔ اسے قیامت سے بھی بڑھ کرکہا جا سکتاہے۔۔اتنی شرمناک۔۔۔درد ناک اور اذیت ناک کہ جی چاہتاہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ ۔۔۔کسی کو بتائے بغیر اس معاشرے سے کہیں دور چلا جائوں جہاں اتنا ظلم نہ ہو۔۔۔لاہور میں 14سالہ لڑکی کے ساتھ 10اوباشوں کا گینگ ریپ۔۔۔یہ خبر سن کر اور تفصیل پڑھ کر دردر ِ دل رکھنے والا ہر شخص یہ کہنے پر مجبورہے الحفیظ و الا مان۔۔۔ اتنی درندگی۔۔۔ اتنی سفاکی کہ شیطان بھی شرماجائے ۔سال ہونے کو ہے جب ننکانہ صاحب میں سات ماہ کی بچی سے زیادتی ہوئی خبر پڑھ کر تو دل کانپ کانپ گیا تھا۔۔ملزم کو گرفتارتو کرلیا گیا لیکن اتنی ننھی سی جان کے ساتھ انشانیت سوز سلوک کو کیا نام دیا جائے ۔۔سوچتاہوں ہم سب کس ماحول میں رہ اور جی رہے ہیں ایسا ظلم تو ان ممالک میں بھی روا نہیں جوغیر مسلم ہیں لیکن وہاں پاکستان سے بہتر سماجی رویہ،بنیادی حقوق اور انصاف میسرہے۔۔اف خدایا! یہ کیسی درندگی کی انتہا ہے کہ معصوم فرشتے اورننھی پریاں بھی محفوظ نہیں۔۔ اگر ہم سب غور کریں دل سے محسوس کریں تو احساس ہوگاپاکستان میں دن بہ دن جنسی درندگی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے
اس میں میڈیا کا کردار بڑاکلیدی ہے یہ سب مانتے اور جانتے ہیں کہ خصوصا الیکٹرانک میڈیا نے آگے نکلنے کی بھیڑ چال میں ہمارا قومی تشخص بھی دائو پر لگا دیاہے قریباًہر چینل پر بیشتر ایسے انڈین پروگرام بڑے دھوم دھرلے سے دکھائے جارہے ہیںجو ایک فیملی کے تمام فرد ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے بدقسمتی سے تمام پاکستانی چینل بھی انڈیا کی نقالی میں بازی لیتے جارہے ہیں ان کھلے ڈھلے میوزیکل پروگراموں،LoveStoriesپر مبنی ڈرامہ سیریل اور نیم عریاںبھارتی فلموں نے اچھے بھلے انسان کی جنسی بھوک میں اضافہ کردیا ہے ان عوامل کی وجہ سے والدین بھی اپنی اولادکے ہاتھوں بے بس ہوکر رہ گئے ہیں چونکہ ہمارے معاشرتی، معاشی اوردیگر گھریلو حالات کے باعث معاشرہ میں کھٹن(فرسٹیشن) زیادہ ہے اس لئے یہ ماحول بھی اثرانداز ہوتاہے اوپر سے رہی سہی کثر غربت مہنگائی اور بیروزگاری نے گھمبیر کرکے رکھ دی ہے اسی بناء پر حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے قانون میں اتنے سقم ہیں کہ کسی جنسی جنونی کو سزا نہیں ملتی ابھی چند ماہ قبل ایک جنسی جنونی معصوم بچی کو درندگی کا نشانہ بنا کر لاہور کے ایک ہسپتال چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا ملزم کوابھی تک کوئی سزا نہیں ملی۔ کئی سال پہلے جاوید اقبال نامی سیریل کلر نے100بچے قتل کرکے ان کی لاشیں تیزاب میں ڈال کر ٹھکانے لگانے کااعتراف کیا لیکن قانون اسے کوئی سزا نہ دے سکا ا س کی مبینہ خودکشی سے جہاں بہت سے اس کے ساتھیوںنے سکھ کا سانس لیا وہاں یہ کیس بھی داخل دفتر کردیا گیا۔پاکستان میں کمسن اور چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے رحجان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے یہ رحجان ہماری حکومت، معاشرے اور ہم سب کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے
Pakistan
ایک اسلامی ریاست میں یہ سب خوفناک ہے اس ساری صورت ِ حال میں ہماری سٹیٹ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ‘ پوری نہیں کررہی تعلیمی نصاب میں اخلاقی اقدار پر مبنی مضامین کو نظر انداز کرکے جب جنسی تعلیم کے مضامین پڑھائے جائیں گے تو معاشرہ میں ان واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ یہ بات طے ہے کہ جنسی واقعات کی روک تھام جنسی تعلیم سے نہیں حدود اللہ کے نفاذ سے ہوگی حکومت کو چاہیے کہ فوری طورپر اخبارات، TV چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ پر مانع حمل معلو ماتی پروگرام ،گرین سٹار، ساتھی ،ہمدم کنڈوم ،آل ویز طرز کے پیڈ کے اشتہار بند کردے یہ ساری باتیں اور ضرورتیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں اس کی تشہیر ضروری نہیں جب ٹی وی اور اخبار نہیں تھے اس وقت بھی لوگ گذارا کرتے تھے تشہیر سے مسائل جنم لے رہے ہیں ٹی وی پر جب بچے بڑوں سے سوال کرتے ہیں کہ ساتھی کیا ہے ؟ اس وقت بڑوں کی حالت یقینا قابل ِ رحم ہوتی ہوگی ۔ ہم مشرقی لوگ ہیں ہماری اخلاقی اقدار ، روایات اور تہذیب و تمدن شتر بے مہار آ زادی کا ہر گز ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوںپر بھرپور توجہ دیں بالخصوص ٹین ایج کی ضرورتوں اور سرگرمیوں کا خیال رکھا جائے ان کے دوستوں اور ارد گرد کے ماحول کا بغوبی جائزہ لیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ والدین کم وسائل ہونے کے باوجود بھی بچوںکو تعلیم دلانے کیلئے بھرپور جدوجہد کریںاس سے کئی فائدے ہو سکتے ہیں بچے تعلیم کیلئے مکتب جائیں گے تو وہ گھر کے ماحول سے باہر نکل کر مزیدکچھ سیکھنے کی جستجو کریں گے۔ تعلیم یافتہ لوگوںکو ترقی کے زیادہ چانسز ملتے ہیں، صحت مند سر گرمیاں بچوں کی صلاحیتوںمیں نکھار لاتی ہیں جس سے اچھے شہری بننے میں معاونت ہوتی ہے بچوںکی سرگرمیاں واچ کرنے اور ان پر توجہ دینے سے کئی مسائل خود بخود حل ہو جا تے ہیں ۔ حکومت ، فانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے گذارش ہے کہ جنسی جرائم بالخصوص بچوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے تاکہ کسی بچے پر پھر کوئی قیامت نہ ٹوٹے۔۔۔
کیونکہ جنسی تشدد کے بھینٹ چڑھنے والوں میں سے بیشترکی شخصیت مجروح ہوکر رہ جاتی ہے جس کا بدلہ وہ معاشرہ سے لیتے ہیں جس سے جرائم کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتاہے خدا کرے ہمارے پیارے وطن میں قیامت سے پہلے قیامت کے واقعات ختم ہو جائیں اس سے اکثر لوگ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ورنہ ہم جیسے حساس لوگ کہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ ۔۔۔کسی کو بتائے بغیر اس معا شرے سے کہیں دورنہ چلے جائیں جہاں اتنا ظلم نہ ہو۔