لندن (جیوڈیسک) وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا برلن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں کہنا تھا کہ انتخابات میں پاکستانی عوام نے سوچ سمجھ کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ دھرنے والے نیا خیبر پختونخوا بنا کر دکھائیں پھر نیا پاکستان بنانے کی بات کریں۔ نئے پاکستان کی جھلک خیبر پختونخوا میں نظر آنی چاہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم خلوص نیت سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا عزم رکھتا ہوں۔ پاکستان اگر ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو سب کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ پاکستان دہشتگردی کیخلاف بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہم سب کو اکھٹے ہو کر اس کی سپورٹ کرنی چاہیے۔ ہم سب سے پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حکومت بجلی بحران کا مسئلہ حل کرنے میں نہایت سنجیدہ ہے تاہم راتوں رات بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کوشش کر رہی ہے، بجلی کے مسلئے کو بہت جلد حل کر لیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری مدت حکومت میں پاکستان سے بجلی کے بحران کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ترقیات منصوبے 2018ء سے پہلے مکمل کرلئے جائیں گے۔
پاکستان میں بیروزگاری کے خاتمے پر منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے مسائل حل کر لیتا ہے تو دہشتگردی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا تو ماحول پرسکون ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دھرنوں کا تماشہ لگا ہے، ڈالرز کی قیمت 104 تک پہنچ گئی ہے۔ ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعد ازاں لندن پہنچے پر میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نے کہا کہ چین کی جانب سے معاہدے قرضے نہیں بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہے۔ چین پاکستان میں 40 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
بجلی بحران کے خاتمے کیلئے چین پاکستان کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ معاہدوں کی تکمیل سے پاکستان اور چین کے تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن کچھ عناصر نہیں چاہ رہے کہ یہ معاہدے پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سیاستدانوں کو مذاکراتی ٹیم میں ایجنسیوں کو شامل کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ جوڈیشل کمشن میں ایجنسیوں کو شامل کرنے کا مطالبہ عجیب ہے۔ کسی کو پاکستان کیساتھ منفی کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمشن کے قیام کیلئے خط لکھ دیا ہے۔ جوڈیشل کمشن بنانا یا نہ بناناچیف جسٹس کا کام ہے۔ حکومت چیف جسٹس کو ہدایت نہیں دے سکتی۔