جوڈیشل کمیشن کی تشکیل

Anwar Zaheer Jamali

Anwar Zaheer Jamali

تحریر : محمد اشفاق راجا
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ عدالتی کمشن چاہے تو مجھ سے تحقیقات شروع کر لے۔ چیف جسٹس کو تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کیلئے خط لکھ دیا ہے۔ وہ چاہیں تو ٹی او آر میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ گزشتہ روز گورنر ہا?س لاہور میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ منفی سیاست کا دور اب ختم ہو چکا۔ ملک میں افراتفری اور انتشار کی سیاست کرنیوالوں کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے خود کو اور پورے خاندان کو سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ جیسے چاہتی ہے ہم تحقیقات میں تعاون کرینگے۔ ہم نے کمشن کا دائرہ وسیع کر رکھا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہنگامہ کرنیوالے میرے نہیں ملکی ترقی کیخلاف ہیں۔ انکے بقول عمران خان سیاست نہیں، صرف بدکلامی کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات پہلے سے بہتر ہیں۔ انہیں ایسے ہی چلتے رہنا چاہیے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کوٹلی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا تقاضہ کیا اور کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات تک وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بلاول کے اس مطالبے کی حمایت کی اور کہا کہ نواز شریف کو سمجھ لینا چاہیے کہ ملک میں جمہوریت ہے۔ بادشاہت نہیں، وزیر اعظم کا نام کرپشن میں آ جائے تو انہیں جواب دینا پڑتا ہے اور ان کیلئے حکومت کرنے کا اخلاقی جواز ختم ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ پانامہ کی ایک لاء فرم کی جانب سے دنیا کی مختلف شخصیات کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے افشا کئے گئے دو لاکھ سے زائد پیپرز میں جن ممالک کی مقتدر یا سابق حکمران شخصیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے نام سامنے آئے، ان ممالک میں عوامی ردعمل کا اظہار فطری امر تھا چنانچہ برطانیہ، چین، آئس لینڈ اور دوسرے ممالک کے بالخصوص حکمران طبقات کیخلاف عوام سڑکوں پر آگئے اور اپنے اپنے حکمرانوں کے استعفے کا تقاضہ شروع کر دیا۔ چین نے تو میڈیا پر پابندیاں عائد کر کے وہاں عوامی تحریک کا دنیا سے ربط ہی قائم نہ ہونے دیا۔

David Cameron

David Cameron

تاہم برطانیہ کے وزیر اعظم کیمرون عوامی تحریک کے باعث سخت دبا? میں آئے جبکہ آئس لینڈ سمیت بعض ممالک کے سربراہان عوامی تحریک کو دبانے میں ناکام رہے جنہیں بالآخر مستعفی ہو کر گھر واپس جانا پڑا۔ برطانوی وزیر اعظم سخت عوامی دبا? کا سامنا کرتے ہوئے بغیر استعفے کے ہی اپنے معاملات درست کر چکے ہیں۔ تاہم ہمارے ملک میں تو پانامہ لیکس نے اپوزیشن کے مردہ جسم میں گویا نئی روح پھونک دی ہے۔ عمران خان پہلے دو ہفتے تک تو سٹریٹ پاور استعمال کرنے کے بجائے حکمران خاندان کو محض بیان بازی کے ذریعے اپنی توپوں کی زد میں لا کر اسے دفاعی پوزیشن پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اب وہ جلسے جلوسوں کے ذریعے سٹریٹ پاور بروئے کار لانے کا راستہ بھی اختیار کر چکے ہیں۔

اصولی طور پر تو پانامہ پیپرز میں آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے جن جن شخصیات کے بھی نام آئے۔ ان سب کو رضا کارانہ طور پر خود کو احتساب کیلئے پیش کر دینا چاہیے تھا جس سے وزیر اعظم کے استعفے کے تقاضے کا جواز بھی نکل آتا مگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت جن بھی پارٹیوں کی شخصیات کے نام آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پانامہ پیپرز میں آئے انہوں نے اپنے لوگوں کے معاملات سے صرف نظر کر لیا اور بلیم گیم کی سیاست میں صرف حکمران خاندان کو فوکس کر لیا جس سے سوائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے عوام کو بے لاگ احتساب کے معاملہ میں اب تک کوئی مثبت پیغام نہیں ملا۔ وزیر اعظم نواز شریف بلیم گیم کی اس سیاست میں شروع دن سے ہی سخت دبا? میں آ گئے تھے چنانچہ اپنے خاندان کے نجی معاملات کی وضاحت کیلئے یکے بعد دیگرے قوم سے خطاب کر کے وہ اپوزیشن کو مزید تنقید کا موقع فراہم کرتے رہے۔

کچھ ایسی ہی عجلت پسندی انکی پارٹی کے عہدے داران اور وفاقی و صوبائی وزرائ کے ردعمل سے بھی نظر آئی چنانچہ مزاحمتی سیاست کے باعث میاں نواز شریف سخت دبا? میں آ کر عارضہ قلب میں بھی مبتلا ہو گئے اور انہیں علاج و معالجہ کیلئے لندن روانہ ہونا پڑا تاہم تنقیدی سیاست نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا چنانچہ وہ چند دنوں میں ملک واپس لوٹ آئے مگر انکے ملک کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ایک بیان سے ان کیلئے مزید پریشان کن صورتحال پیدا ہو چکی تھی کیونکہ آرمی چیف کی جانب سے بلاامتیاز سب کے احتساب کی بات کر کے اس احتساب کیلئے فوج کی معاونت کا عندیہ بھی دے دیا گیا تھا۔

Supreme Court

Supreme Court

وزیر اعظم پہلے ہی کسی سابق جج سپریم کورٹ کی سربراہی میں کمشن کی تشکیل کا اعلان کر چکے تھے جس پر عمران خان کی بلیم گیم کی سیاست شروع ہوئی تو کوئی بھی سابق جج کمشن کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن کی تشکیل کا تقاضہ زور پکڑ گیا چنانچہ وزیراعظم نے ملک واپسی پر قوم سے اپنے دوسرے خطاب کے دوران جوڈیشل کمشن کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوانے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ یہ کمشن پانامہ پیپرز کے علاوہ اب تک قرضے معاف کرانیوالے لوگوں کے معاملات کی بھی تحقیقات کریگا جس پر پیپلز پارٹی او رتحریک انصاف نے مجوزہ کمشن کی ان ٹرمز آف ریفرنس کو بھی مسترد کر دیا اور کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) اپوزیشن کی مشاورت سے تیار کرنے کا تقاضہ کیا۔

اب وزیراعظم نے یہ تقاضہ بھی عملاً تسلیم کرتے ہوئے عندیہ دے دیا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ٹی او آر میں رد و بدل کے بھی مجاز ہو ں گے اور کمشن کے دائرہ کار کا بھی وہی تعین کرینگے مگر اپوزیشن لیڈران اب وزیر اعظم کے استعفے کا تقاضہ کرتے نظر آ رہے ہیں جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا مطمع¿ نظر بے لاگ احتساب نہیں بلکہ وزیر اعظم کی ہر صورت اقتدار سے چھٹی کرانا ہے۔ اس مقصد کے تحت ہی کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس کو صرف حکمران خاندان کے خلاف تحقیقات تک محدود کرنے اور اب وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا تقاضہ کیا جا رہا ہے چنانچہ کل کو چیف جسٹس سپریم کورٹ پانامہ پیپرز کے معاملہ پر جوڈیشل کمشن تشکیل بھی دے دیتے ہیں تو عمران خان کی دھما چوکڑی والی سیاست پھر بھی برقرار رہیگی جس سے اعلیٰ عدلیہ کے متعلقہ فاضل جج بھی تنقید کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اس پس منظر میں غالب امکان یہی نظر آتا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی جوڈیشل کمشن کیلئے عدلیہ میں سے کوئی جج دینے سے معذرت کر لینگے جسکا عندیہ وہ ترکی روانہ ہونے سے پہلے ایک کیس کی سماعت کے دوران دے چکے ہیں کہ کسی معاملہ کی انکوائری کرنا عدلیہ کا کام نہیں، حکومت کے پاس اور بھی ادارے موجود ہیں جنہیں انکوائری پر مامور کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں وزیر اعظم تو جوڈیشل کمشن کے معاملہ پر دفاعی پوزیشن پر نہیں آئینگے کیونکہ ان کے بقول انہوں نے تو خود کو اور اپنے خاندان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔ اگر اپوزیشن کی بلیم گیم کی سیاست کے پیش نظر اب چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمشن کے معاملہ میں عدلیہ کو خود ہی فاصلے پر رکھیں گے تو اس سے بادی النظر میں وزیر اعظم پر انگلی اٹھانے کا کوئی جواز نہیں رہیگا۔

Politics

Politics

اگر اپوزیشن جماعتیں پانامہ پیپرز کی بنیاد پر ملک میں فی الواقع بے لاگ احتساب کی خواہاں ہیں اور اس پر کسی قسم کی سیاست نہیں کر رہیں تو پھر انہیں چیف جسٹس سپریم کورٹ کیلئے جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے سلسلہ میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں اور الزام تراشی کی ایسی فضا نہیں بنانی چاہیے کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمشن کی تشکیل سے بھی معذرت کر لیں۔ جبکہ جوڈیشل کمشن تشکیل پا جائیگا تو عمران خان سمیت ہر اپوزیشن لیڈر کے پاس یہ موقع آ جائیگا کہ وہ جوڈیشل کمشن کے ٹی او آر میں رد و بدل اور کمشن کے دائرہ کار کے تعین کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔ اسطرح بے لاگ احتساب کی راہ بھی ہموار ہو جائیگی۔ تاہم اپوزیشن کی نیت ہر صورت وزیر اعظم کی گردن میں پھندہ ڈلوانے کی ہے تو یہ احتساب کی عملداری کی نہیں، سیاسی ماحول کو مکدر کر کے ان قوتوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی سیاست کر رہی ہے جو ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے کا پہلے بھی چار بار تجربہ کر چکی ہیں جس سے ملک و ملت کو پہنچنے والے نقصانات کی آج تک تلافی نہیں ہو سکی۔

بے لاگ احتساب کا نعرہ تو یقیناً پرکشش ہے جس سے قوم کے دلوں میں ایک نئی امید کی جوت جاگتی ہے مگر اس پرکشش نعرے کو طالع آزما جرنیلی آمروں کا ہتھیار نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔ وہ ماورائے آئین اقدام کیلئے بے لاگ احتساب کی بات کر کے عوام کی ہمدردیاں وقتی طور پر ضرور حاصل کر لیتے ہیں مگر جرنیلی آمریتوں کی تاریخ شاہد ہے کہ انکے ادوار میں بھی بے لاگ احتساب کا تقاضہ کبھی پورا نہیں ہوا حالانکہ سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے ناطے انہیں بے لاگ احتساب کی راہ میں کوئی امر مانع ہونے ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔ اسکے برعکس جرنیلی آمریتوں کے ہاتھ بھی کرپشن اور قومی خزانہ کی لوٹ مار کی دلدل میں دھنسے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

اس صورت حال میں جمہوریت سے وابستگی کے داعی سیاستدانوں کو عقل کے ناخن لینے چاہیں جو پہلے بھی اقتدار کی ہوس میں جرنیلی آمروں کو کندھا فراہم کر کے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ اب بھی وہ محض اقتدار کی ہوس میں جرنیلی آمروں کیلئے فضا سازگار بنانا چاہتے ہیں تو پھر اگلی ربع صدی تک انکے مسند اقتدار تک پہنچنے کا خواب شاید ہی پورا ہو پائیگا۔ انہیں اقتداری سیاست میں قوم کابے لاگ احتساب کا خواب ادھورا نہیں رہنے دینا چاہیے۔ قوم کا یہ خواب ٹوٹا تو پھر اس کا ردعمل انتہائی بھیانک ہو گا جس میں حکمران اشرافیہ طبقات کو اپنے بچا? کیلئے کوئی راستہ نہیں ملے گا۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا