تحریر: محمد صدیق پرہار
پاکستان تحریک انصاف کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان سے ان کی قومی اسمبلی میں واپسی تک جو کچھ ہوتا رہا اس سے ہمارے قارئین اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کا موقف ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے وہ خاطرخواہ نشستیں حاصل نہیں کرسکے۔ عمران خان کے بقول انہوںنے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ہرفورم سے رابطہ کیا تاہم ان کی بات کسی نے نہیں سنی۔ انہوںنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اوردھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ جس روز پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کرنا تھا اس سے ایک دن پہلے وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے اپنے خطاب میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔
اس کے کچھ دیربعد عمران خان نے نوازشریف کی اس پیشکش کو یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ نوازشریف کے ہوتے ہوئے شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے سربراہ نے نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ لانگ مارچ لاہور سے روانہ ہوکر اسلام آباد میں اپنے مقررہ مقام پر ختم ہوگیا۔ اسی جگہ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے حق میں دھرنا دے دیا۔ دھرنے سے اپنے خطابات میں عمران خان نے بارہا نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران حکومت اور تحریک انصاف کے وفود کے درمیان مذاکرات کے کئی دورہوئے ۔ بار بار مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹتا اور پھر جڑتارہا۔ حکومت کی طر ف سے جو مذاکراتی وفد میں اپوزیشن ارکان شامل ہوتے تھے۔ مذاکراتی ٹیم میں حکومتی وفد نوازشریف کے استعفے کے علاوہ تحریک انصاف کے تمام مطالبات ماننے کو تیار تھا۔ جبکہ عمران خان نواز شریف کے استعفے سے کم کسی بات پر آمادہ ہی نہیں ہو رہے تھے۔ پھر انہوں نے دھرنے سے اپنے خطابات میں نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔ مذاکرات ہو تے رہے۔ تاہم اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
دھرنا جاری تھا کہ سانحہ پشاور پیش آگیا۔ پوری قوم کے ساتھ اس سانحہ کے دکھ کو عمران خان نے محسوس کیا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یوں کئی ماہ سے دھرنا ختم ہو گیا۔ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عمران خان نے حکومت کے ساتھ تعاون کا اعلان کیا۔ نواز شریف اور عمران خان نے تنازعات مل کر حل کرنے پر بھی اتفا ق کیا تھا۔ دھرنے کے دوران عمران خان نے دھاندلی کی تحقیقات نہ کرنے کے خلاف تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے استعفے قومی اسمبلی میں جمع کرادیے۔ اسمبلی اجلاسوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا۔ سیاستدانوں کی طرف سے تحریک انصاف کے استعفے منظورکرنے اورنہ کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہے۔ سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کو باربار فرداً فرداً بلاتے رہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف بضد تھی کہ ہمارے ارکان اسمبلی اپنے استعفوں کی تصدیق ایک ایک ہوکرنہیں سب ایک ساتھ کریں گے۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد عمران خان یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے رہے کہ ہمارے مطالبات نہ مانے گئے توہم پھر سے سڑکوں پرآجائیں گے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق ہو گیا۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت پارلیمانی راہنمائوں کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا حمایت کی۔عمران خان نے کہا کہ ثابت کریں گے نوازشریف دھاندلی سے اقتدارمیں آئے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد گو نوازگو ہونے والا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بارباریوٹرن لینے والا لیڈرکہلانے کا مستحق نہیں عمران پہلے قوم کو پارٹی الیکشن میں دھاندلی کا جواب دیں ۔سابق صدر آصف علی زرداری نے امیدظاہر کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے دھرنا سیاست ختم ہوجائے گی۔سیاستدانوں نے جوڈیشل کمیشن پر اتفاق کے بعد قومی اسمبلی میں واپس آنے کا مشورہ دینا بھی شروع کردیا۔ خاص طور پر سابق صدر آصف علی زرداری، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تحریک انصاف سے اسمبلیوںمیں واپس آنے کا کہا۔ اب ان کا مطالبہ پورا ہونے جار ہاہے اس لیے وہ اسمبلیوںمیں واپس آجائیں۔ اس کے جواب میں عمران خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوںمیں جانے کا فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام پرپوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس کے قیام سے اگلے الیکشن میں شفافیت بڑھے گی۔اس میں عمران خان یہ تسلیم کررہے ہیں کہ حالیہ عام انتخابات بھی پہلے کی نسبت شفاف ہوئے ہیں ۔ جبھی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے اگلے الیکشن میں شفافیت بڑھے گی۔ ورنہ وہ کہتے کہ شفافیت آئے گی۔ سرکاری ملازمین اکثرمطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہ بڑھائی جائے وہ یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ انہیں تنخواہ دی جائے۔ اس لیے کہ وہ تنخواہ پہلے سے لے رہے ہوتے ہیں ۔اسی طرح عمران خان تسلیم کررہے ہیں کہ انتخابات پہلے ہی شفاف ہوئے اب مزید شفاف ہوں گے۔ عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے صدرپاکستان ممنون حسین نے جوڈیشل کمشن کے قیام کا آرڈی نینس جاری کردیا۔ جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تین ججوںپرمشتمل کمیشن تشکیل دیں گے۔
جو دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر ٤٥ روز کے اندر رپورٹ پیش کرے گا۔ کمیشن تحقیقات میں حساس اداروں سے مددبھی لے سکتا ہے ۔دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیراعظم اسمبلی تحلیل کردیں گے۔اورنگران حکومت تشکیل دی جائے گی۔جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے صدارتی آرڈیننس کے اجراء کے بعد تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں واپس آنے کا اعلان کردیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ دھاندلی کے خلاف اب اسمبلی اورسڑکوں پرآوازبلند کریں گے۔جوڈیشل کمیشن بن گیا۔اب ثابت کریں گے ٧٠ لاکھ جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے۔ میرا ایمان ہے دوہزارپندرہ الیکشن کا سال ہوگا۔تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی میں واپس آنے کے اعلان کے بعد رد عمل کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ملتان میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کہا کہ پارلیمنٹ کسی کی منکوحہ نہیں کہ جب چاہے رجوع کرلیا جائے اورجب چاہے چھوڑ دیا جائے۔کبھی حکومت کے ساتھ کبھی اپوزیشن میں اس بارے ہاشمی صاحب کیا کہتے ہیں۔ استعفوں کے بعد تحریک انصاف کا اسمبلیوںمیں جاناغیرآئینی ہوگا۔انہیں سپریم کورٹ کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کس حیثیت سے واپس آئے گی۔ دیکھنا ہوگا اسمبلی میں اجنبی تو نہیں۔زاہد خان نے کہا کہ جعلی لیڈرجعلی اسمبلی جائیں گے۔جبکہ خورشیدشاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوںمیں خوش آمدید کہیں گے۔ بی بی سی نے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آئینی پچیدگیوںکے خدشہ کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل دوسوپچیس دھاندلی کی تحقیقات کا اختیارٹربیونل کو دیتا ہے جو چیلنج نہیں ہوسکتا۔اس نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اورٹربیونل کے فیصلوں میں تضاد کی صورت میں کس کافیصلہ مانا جائے گا۔ سیدھی سی بات ہے جس کا فیصلہ جس کے حق میں ہوگا وہی اس کے فیصلے کو ترجیح دے گا۔ بی بی سی کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ بیرسٹر ظفر اللہ نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیش کے قیام کو سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں چیلنج کردیا ہے ۔اپنی آئینی پٹیشن میں بیرسٹر ظفراللہ نے موقف اختیارکیا ہے کہ انتخابی دھاندلی کے لیے آئین کے تحت انکوائری ٹربیونل بنادیے گئے جو انتخابات میں دھاندلی سے متعلق مختلف پٹیشنز کی سماعت کررہے ہیں ۔جبکہ متعدد پٹیشنز پر فیصلے بھی سنا چکے ہیں۔
اس موقع پر کسی کی خواہش پر دھاندلی کی تحقیقات کے لیے نیا جوڈیشل کمیشن نہیںبنایا جاسکتا۔جوڈیشل کمیشن کا قیام اورآرڈیننس آئین کے خلاف ہیں لٰہذا عدالت کالعدم قراردینے کا حکم جاری کرے۔ بیرسٹر ظفر اللہ یہی پٹیشن اس وقت دائر کرتے جس وقت عمران خان اسلام آبادمیں دھرنا دیے ہوئے تھا۔ تو اب سے زیادہ بہتر ہوتا۔ بیرسٹر صاحب قانون کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس وقت کون سی پٹیشن مناسب رہتی ہے۔ تاہم یہ پٹیشن اس وقت دائر کی جاتی جب دھرنا جاری تھا تو دھرنا بھی ختم ہوجاتا اور شاید جوڈیشل کمیشن کے قیام کی نوبت بھی نہ آتی۔ اس وقت اس پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا جاسکتا تھا کہ انکوائری ٹربیونل دھاندلیوں سے متعلق پٹیشنز کی سماعت کررہے ہیں یہ عمران خان کس لیے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ یمن کی صورت حال پر بحث کرنے اور جنگ میں پاکستانی فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں اپنے اعلان پر عمل کرتے ہوئے تحریک انصاف نے شرکت کی۔ اس نے شرکت کیا کی کہ اس کو کچھ ممبران اسمبلی نے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے پر تحریک انصاف کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے لگتا ہے اس سے ان باتوں کا بدلہ لیا گیا جو عمران خان دھرنے کے دوران اپنے خطابات میں اس اسمبلی کے بارے میں کہتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ حکومتی ارکان ، جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے شدید احتجاج کیا۔ عمران خان پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب پر جے یوآئی (ف) نے واک آئوٹ کیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان بھی علامتی طورپر احتجاجاً ایوان سے باہر چلے گئے ۔ حکومتی ارکان تحریک انصاف کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی انہیں چپ کراتے رہے۔ پہلے سپیکر اپوزیشن ارکان کو چپ کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے اب حکومتی ارکان کو بھی چپ کرانے کی کوشش کرنا پڑی۔سپیکر ایاز صادق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ میں آگئے۔ استعفے اپنی موت آپ مرگئے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کس منہ سے اسمبلی میں آئے۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ وزیر دفاع پورس کے ہاتھی نہ بنیں۔نماز کے وقفہ کے دوران نواز شریف نے بھی خواجہ آصف کی سرزنش کرتے ہوئے رویہ کو نامناسب قراردیا۔ جبکہ خواجہ آصف کہتے ہیں میری کسی نے سرزنش نہیں کی۔ نواز شریف نے کہا کہ اپوزیشن کی کسی بھی بات پر شدید رد عمل نہ دیا جائے ۔جس مقصد کے لیے سیشن بلایا ہے اسی پر بات کی جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی والے اراکین نہیں اجنبی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم حقیقی مینڈیٹ لائیں گے۔ خورشید شاہ نے کہا حکومت نے خود دعوت دی ارکان کا یہ رویہ شرمناک ہے۔پارلیمنٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے خواجہ آصف کو خوب سنائیںاورکہا شور مچانے والے خوفزدہ ہیں جوڈیشل کمیشن انہیں بے نقاب کر ے گا۔ نواز شریف سمیت سب کہہ رہے تھے اسمبلیوںمیں آئیں۔ دھاندلی پر بھی سب یک آواز ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان نے منہ سے نکالے الفاظ کو چاٹ لیا ۔ استعفے آئینی طور پر منظور ہوچکے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے قیام ، تحریک انصاف کی ایوان میں واپسی اور ان کے استعفوں پر سیاستدانوں اور آئینی ماہرین کی متضاد آراء پائی جارہی ہیں ۔ کوئی انہیں اسمبلیوںمیں واپس آنے کی دعوت دیتا ہے تو کوئی ان کو اسمبلی میں آنے پر آڑے ہاتھوں لے لیتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا ہے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے ۔حکومت کا کمیشن کے قیام کے لیے عدالت عظمیٰ کو خط سپریم کورٹ کو موصول بھی ہو چکا ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور ہوگئی تو پٹیشن کا فیصلہ آنے تک جوڈیشل کمیشن کا قیام موخر ہوسکتا ہے۔ پھر یہ معاملہ ٤٥ دنوں سے غیر معینہ مدت تک کے لیے بڑھ سکتا ہے۔ پٹیشن کے حق میں فیصلہ آگیا تو جوڈیشل کمیشن کا معاملہ ختم ہو جائے گا۔اور اگر پٹیشن خارج ہو گئی تو پھر کمیشن قائم ہو جائے گا۔ اس لیے جوڈیشل کمیشن کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قائم ہوتا ہے یا نہیں۔ تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوئے ہیں یانہیں۔ اس کے اراکین اسمبلی میں آسکتے تھے یا نہیں ۔ یہ سیاسی اورآئینی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ ان کے استعفے منطور ہوچکے ہیں تو ان کو اسمبلی میں واپس آنے کی دعوت کیوں دی گئی۔ اگر منظورنہیں ہوئے تو پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کو پارلیمنٹ میں آنے پر آڑے ہاتھوں کیوں لے لیا گیا۔ کیا اسی کو سیاست کہتے ہیں ۔یہ سیاست کون کررہا ہے۔ اراکین اسمبلی میں سے کون نہیں جانتا کہ استعفے خود بخود منظورہوجاتے ہیں یا جب تک کوئی منظورنہ کرے نہیں ہوتے۔ اکثرمعاملات میں قوم کواندھیرے میںکیوں رکھا جاتاہے۔ نوازشریف نے تو پہلے ہی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کردیا تھا عمران خان اس وقت مان جاتے تو قوم کو دھرنوں کی وجہ سے جونقصان اٹھانا پڑا ہے وہ نہ اٹھانا پڑتا۔پی ٹی آئی اسمبلیوں میں آگئی ہے تو بھی اسے تنقید کا سامنا ہے اورنہ آتی تو بھی اسے تنقیدکاسامناکرناپڑتا۔ان کی اسمبلیوںمیں واپسی اچھا اقدام ہے ۔ اب انہیں ملک کے استحکام ، قومی ترقی اوراندرونی وبیرونی چیلنجز سے نمٹنے اورجمہوریت کی مضبوطی کے لیے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔دھاندلی ثابت ہوگئی تو وزیراعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے ثابت نہ ہوئی تو عمران خان کیا کریں گے اس بارے کچھ نہیں کہا گیا۔ اس سے مسلم لیگ ن کی معاملات کو حل کرنے کی کوششوں کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہی تحریک انصاف کی اسمبلیوںمیں واپسی کو چیلنج کر دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اسی نوعیت کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی اورحکومت سے بائیس اپریل کو جواب طلب کرلیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں درخواست گزارنے عدالت سے استدعاکی ہے کہ سپیکر کوپی ٹی آئی کے استعفے منظور کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔
تحریر: محمد صدیق پرہار
[email protected]