تحریر : سید توقیر زیدی چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے لے کر مجسٹریٹ تک تمام عدالتیں مکمل آزاد ہیں اور انصاف کی فراہمی کے لیے کسی دبائو کا شکار نہیں ہیں’ اْنہوں نے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آئین میں عدلیہ’ مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات واضح کر دیئے گئے ہیں’ لہٰذا انصاف کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنی مقررہ (آئینی) حدود سے تجاوز نہ کرے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کی خوشنودی یا میڈیا کے دبائو میں آ کر فیصلے نہیں کر سکتے اور یہ کہ ادارے کرپشن’ اقربا پروری کے خاتمے اور میرٹ کے نفاذ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تقریب سے نامزد چیف جسٹس ثاقب نثار اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ عدلیہ کے اختیارات لامحدود نہیں اور یہ کہ قانون کی حکمرانی کا اصول پہلے خود پر لاگو کرنا ہو گا۔ کارکردگی کے لحاظ سے ناکامی یا کامیابی میں کسی ادارے کی تخصیص نہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کوئی ادارہ بھی اپنا فرض صحیح انداز میں ادا نہیں کر رہا ہے۔ زبانی کلامی بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ دہلیز پر انصاف مہیا کرنا تو دور کی بات ہے’ عملاً لوگوں کو عدالتوں میں بھی بروقت انصاف نہیں مل رہا۔ جبکہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ غریب آدمی کی تو کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی’ کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ قانون ہے۔ پیسے والا’ مہنگا ترین وکیل کر کے انصاف لے لیتا ہے۔ لیکن اْس غریب کی بے چارگی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو اشٹام خریدنے کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ مزید برآں یہ کیسا انصاف ہے اور یہ کیسی آزادی ہے کہ قتل میں ملوث شخص کو پھانسی لگے’ دو سال ہو جاتے ہیں تو پھر فیصلہ آتا ہے کہ ”ملزم” بے گناہ ہے’ لہذا رہا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے واقعات ہی لوگوں میں بددلی اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔
یوں معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے’ انارکی پھیلتی ہے۔ ایسی مثالیں بکثرت مل جائیں گی کہ دادا نے کیس کیا اگر پوتے کو ہی انصاف ملا تو اسے بھی غنیمت سمجھا گیا۔ محترم چیف جسٹس نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جو ادارے کام نہیں کر رہے اْنہیں بند کر دینا چاہیے’ اب جبکہ محترم چیف جسٹس خود فرما رہے ہیں کہ ادارے کرپشن’ اقربا پروری اور رشوت کے خاتمے میں ناکام ہو گئے۔ مثال کے طور پر نیب کو ہی لیں’ اْس کی کیا کارگزاری ہے’ کیا ایسے ادارے زیادہ مستحق نہیں کہ انہیں بند کر دیا جائے اور کاش! محترم چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ کام خود ہی کر جاتے’ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ دوسرے اداروں کو بھی کان ہو جاتے اور وہ جان لیتے کہ اْن کی بقا کا دارومدار معیاری کارگزاری پر ہے۔ ہم نے ادارے بنا لئے’ تنخواہوں اور دیگر اخراجات پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن کارگزاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ اداروں کی نااہلی اور عدم کارگزاری کے باعث عدالتوں پر بوجھ بڑھا ہے’ جس کے باعث فیصلوں میں تاخیر ہونے لگی ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری نے میرٹ کا ستیاناس کر دیا ہے۔ جس کے باعث ہمارے ادارے ذہین اہل اور دیانتدار افراد سے خالی نظر آتے ہیں۔
Supreme Court
بھرتیوں میں بے ضابطگیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے صوبے میں گزشتہ چار برسوں کے دوران بھرتیوں کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے’ ظاہر ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی ذمہ داری متعلقہ شعبے کے سربراہ پر ہے۔ اگر ہم ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے میرٹ کی سختی سے پابندی کرنے لگیں’ تو ہمارے وہ ادارے جن کی کارگزاری ناقص ہے اور قومی خزانے پر بوجھ ہیں’ فعال ہو جائیں۔ انتظامی ڈھانچے کا اندرونی حال یہ ہے کہ اگر کسی محکمے میں حْسن اتفاق سے کسی کلیدی آسامی پر فرض شناس اور دیانتدار اہلکار’ افسر پہنچ جاتا ہے تو اْوپر سے نیچے تک شور مچ جاتا ہے کہ ”چشمہ فیض” کے آگے دیوار کھڑی ہو گئی ہے’ بیچارے کو مختلف حربوں سے اْس جگہ سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ بھی بے بس ہو کر اس ماحول میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھنے لگتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسے فرض شناس اور دیانتدار اہلکاروں کی زندگی خطرے میں پڑی ہوتی ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی کا باعث’ سیاست بازی ہے’ کسی ایک شعبے کا ذکر کیوں کریں جبکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ وہ جامعات علمی دْنیا میں اپنا جائز مقام کیسے حاصل کر سکیں گی جن کے سربراہوں کی تقرری میرٹ سے ہٹ کر ہو گی۔ اس وقت منظر نامہ یہ ہے کہ وہ ادارے جنہیں کرپشن اور بدعنوانی کی گرفت کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا وہ سب سے زیادہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا شکار ہیں۔
بہرحال جب تک ادارے اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرنے لگیں گے’ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ امیر’ غریب کا فرق بڑھتا جائے گا’ جس سے معاشرے میں بددلی اور مایوسی پھیلے گی اور ایسے حالات جرائم کی نشودنما کے لیے سازگار ثابت ہوتے ہیں۔ اداروں کی اصلاح کی اولین ذمہ داری حکمرانوں پر ہے’ اس کے بعد یہ ذمہ داری پارلیمنٹ اور عدالتوں کی ہے۔ جب ذمہ داروں کی توجہ اصلاح احوال کی طرف دلائی جاتی ہے تو اْن کی طرف سے یہ عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ فرشتے کہاں سے لائیں۔ حالانکہ معاشرے میں دیانتدار اور باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں’ اْن کی تلاش اور اْنہیں ایڈجسٹ کرنے کے لیے قومی خیر خواہی کے جذبے کی ضرورت ہے۔