برسلز (جیوڈیسک) ترک وزیر اعظم نے برسلز میں اعلیٰ یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یورپی یونین کے تحفظات کی وجہ سے وہ ملکی عدلیہ میں اصلاحات کے اپنے مجوزہ منصوبے کو ترک نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سپریم بورڈ آف ججز اینڈ پراسیکیوٹرز میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے اپنے منصوبے کو عملی جامہ ضرور پہنائیں گے۔ اردون کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ارادہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی متعدد اختیارات سیاست دانوں کو منتقل کر دیے جائیں، جن میں ججوں کی تقرری کا اختیار بھی شامل ہے۔ یورپی یونین کے مطابق یہ منصوبہ متنازعہ ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم نے کہا کہ عدلیہ کو اپنے مشن اور منڈینٹ سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ اردون کا مزید کہنا تھا یہ وہ کام ہے جو ہم کر رہے ہیں اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ غلط بیانی اور مسخ شدہ حقائق پر مبنی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا ہمارے یورپی دوستو نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں جنہیں ہم ضرور توجہ دیں گے۔
دریں اثناء یورپی کونسل کے صدر ہیرمان فان رومپوئے نے کہا ہے کہ انہوں نے ترک وزیراعظم پر زور دیا ہے کہ کامیابیوں کے راستے پر چلتے ہوئے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ملکی عدلیہ کسی امتیازی سلوک کے بغیر شفاف اور غیرجانبدار طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہے۔
یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو کا کہنا تھا کہ انہوں نے اردون کے ساتھ ترکی کے موجودہ حالات پر بڑے کھلے انداز میں گفتگو کی۔ باروسو کے بقول میں نے ترک وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران تمام مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے اور ان تمام مسائل کا حل یورپی معیارات کے مطابق ہونا چاہیے۔
اردون نے اصرار کیا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے مابین باہمی تعلقات کے حوالے سے 2014ء انتہائی اہم ثابت ہو گا۔ ترکی نے یورپی یونین کا رکن ملک بننے کی خاطر 1959ء میں کوشش شروع کی تھی تاہم اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز 2005ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ عمل بھی تین برس کے تعطل کے بعد گذشتہ برس ہی بحال ہوا ہے۔