تحریر : قادر خان یوسف زئی سستا، شفاف اور فوری انصاف کی فراہمی ترقی پزیر ممالک کی عوام کیلئے ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی عوام کو جلد انصاف کے حصول کیلئے کئی صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظام اس قدر گنجلگ ہے کہ ایک جج کو ایک کیس کیلئے صرف 2 منٹ 15سیکنڈ ملتے ہیں، ماتحت عدلیہ میں ایک جج کو 6 گھنٹوں میں 150 جبکہ ہائی کورٹ کے جج کو 40مقدمات سننا پڑتے ہیں۔ صرف پنجاب کے 1700 ججوں کے پاس 13لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ جبکہ پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 18لاکھ 69 ہزار سے زائد ہیں۔معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ اصلاحات کا آغاز کیسے اور کب ہوگا اس حوالے سے عوام کو کوئی حوصلہ افزا اُمیدبظاہر نظر نہیں آتی ۔ اصلاحات اور گنجلگ نظام کے حوالے سے حکومت اور جوڈیشنل سسٹم سمیت بار ایسوسی ایشن کے درمیان معاملات اور عدالتی فیصلوں پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عدالتوںسے ایسے غیر مقبول فیصلے کئے گئے جس نے عوام کے اعتماد کو متاثر کیا ۔ آج لاکھوں کی تعداد میں عدالتوں میں مقدمات زیر ِ التوا ہیں تو اس کے اسباب کے سدباب کے لئے عملی کوششوں کی ضرورت ہے۔
تاریخ پر تاریخ اور پھر تاریخ پر تاریخ سے مدعی اور مدعا علیہ کو جس قدر کوفت کا سامنا ہوتا ہے ۔ اس کا فائدہ فریقین بھی اٹھاتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اسپتالوں کے دورے کئے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں اسپتالوں کی کارکردگی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ اس حوالے سے عوامی رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کے دورے ایک اچھی روایت ہے لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ وقتی طور پر تو اسپتالوں کے ذمے داروں پر کپکی تو طاری ہوجاتی ہے لیکن جب تک وزارتیں سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتی یہ نوحہ پڑھا جاتا رہے گا ۔ کیونکہ جب سارے نظام کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو اُسے دوتین دوروں سے درست نہیں کیا جاسکتا ۔
عدالت عظمیٰ پر اس وقت صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ انصاف کے نظام میں اصلاحات کب آتی ہیں اور عوام کو جلد اور سستا انصاف کب اور کیسے ملے گا۔ماتحت عدالتوں میں انصاف کے نام پر جو کھیلوار ہورہا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو ماتحت عدالتوں کی سیڑھیاں روز چڑھتا ہو اور اپنی جیبوں کو انصاف کے حصول کے لئے خالی کرتا ہو۔ ماتحت عدالتوں میں لاکھوں مقدمات کے انبار اور فریقین کو انصاف کی فراہمی میں جس قدر دشواریاں درپیش ہیں وہ کسی بھی اسپتال کی حالت ِ زار سے زیادہ بھیانک ہے۔ خاص طور پر جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل میں اسیر قیدیوں کو اپنے مقدمات کی سنوائی کے لئے دقت طلب مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیل سے مقامی عدالتوں میں لے جانے والی گاڑیوں میں قیدیوں کی حالتِ زار مال بردار گاڑیوں میں لوڈ کئے جانے والے سامان سے بھی بدتر ہے۔ ایک زنجیر میں کئی کئی قیدیوں کو سخت گرفت کے ساتھ تالے لگا کر ماتحت عدالتوں میں کسی بھیڑ بکری کی طرح گھسٹتے ہوئے لے جایا جاتا ہے۔ جیل سے سمن پر ماتحت عدالت جانے کے لئے جیل عملے کو باقاعدہ رشوت ، قیدیوں کی گاڑی میں سیٹ پر بیٹھنے کے لئے مزید رشوت ، کورٹ لاک اپ میں ریوڑ میں بندھنے سے بچنے اور ماتحت عدالت جانے اور پھر واپسی تک رشوت در رشوت در رشوت دینی پڑتی ہے۔
المیہ ہے کہ جیل سے کورٹ لاک اپ جانے کے لئے ہتھکڑی کو انتہائی اذیت ناک طریقے سے باندھا جاتا ہے۔ قیدی سخت گرفت پر اپنی ہاتھوں کی رگوں میں رکنے والے خون کی روانی اور جسم میں اذیت ناک تکلیف پر بلبلا اٹھتا ہے ۔ جیل عملہ ہتھکڑی لگانے کے بھی رشوت لیتا ہے اور کورٹ لاک اپ میں موجود عملہ ماتحت عدالت میں پیش ہونے کے لئے زنجیر اور تالوں کو کھولنے اور لگانے کے لئے بھی رشوت لیتا ہے۔ دس بارہ قیدیوں کو محض دو پولیس اہلکار ماتحت عدالتوں میں جاکر سمن جمع کراتے ہیں اور برسوں برس ضمانت نہ ملنے والے قیدی چارج فریم ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ پولیس فائل ، گواہان ، وکلا کی جرح سمیت ججمنٹ تک ملزمان جس اذیت اور صبر ناک مرحلے سے گذرتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ دید و شنید ہے کہ بیشتر ملزمان تنگ آکر عائد کردہ جرم تک قبول کرلیتے ہیں۔ جیل وزٹ پر آنے والے سیشن کورٹ کے جج صاحبان کے دوروں میں سزا لینے کیلئے باقاعدہ تحریری قبول داری کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ عدالتوں کے چکر لگا لگا کر اتنا بے زار اور رشوت دیتے دیتے اتنا تنگ آجاتے ہیں کہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ اپنے جرم سے زیادہ سزا پانے میں ہی بھلائی ہے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی جرم کے الزام میں گرفتار ملزم ماتحت عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کے لئے جیلوں میں اتنا وقت گذار لیتا ہے جو مقررہ سزا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
ماتحت عدالتوں میں کریمنل مقدمات یا جائیدار سمیت عائلی نوعیت کے کیسوں میں جلد انصاف کا تصور بالکل ناپید ہے۔ کئی کئی نسلوں کو جھوٹے سچے مقدمات میں ماتحت عدالتوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ ضمانتوں کے لئے رشوت کی وصولی ایک معمولی کی کاروائی ہے۔ پیشکار ہو یا پبلک پراسیکوٹر یا خود مدعی یا مدعا علیہ کا وکیل ہو۔ رشوت کو فرض سمجھ کر وصول کرتا ہے اور باقاعدہ فیس طے کرنے سے قبل رشوت کے ریٹ بھی طے کئے جاتے ہیں کہ مخالف کو کس طرح اور کتنا رگڑا کب تک لگانا ہے یا خود کو کیسے بری کروانا ہے۔ ماتحت عدالتوں کی حالت زار انتہائی مایوس کن اور افسوس ناک ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آئینی نوعیت کے درخواستوں اور میڈیا میں مشہور ہونے والے مقدمات کے علاوہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کے انبار نے ماتحت عدالتی عملے کی جانب توجہ کم مبذول ہوئی ہے۔ جیل سے لیکر کورٹ لاک اپ اور ماتحت عدالتوں میں قیدیوں کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے اس کے بعد کسی بھی بے گناہ کا ردعمل میں غلط روش اختیار کرلینا معمولات بن چکے ہیں۔اصلاح خانے ، جرائم کی یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں جہاں عادی جرائم پیشہ ملزمان اور مجرموں کی آشیر باد کے بعد قیدی جب آزاد ہو کر بے انصافی پر مبنی معاشرے میں جاتا ہے تو اس کا مائنڈ سیٹ مکمل طور پر بدل چکا ہوتا ہے۔
جیلوں اور ماتحت عدالتوں کے اسرار سے واقفیت کے بعد ایسے ملزمان کی بڑی تعداد کسی پیشہ ور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے اپنے مقدمے کی پیروی خود کرتا ہے ۔ راقم نے کئی قیدیوں کو اپنے مقدمات کی پیروی کرتے اور حیران کن حد تک قانون کی موشگافیوں ، مہارت اور جرح پر مکمل دسترس کے بعد پبلک پراسیکوٹر کو سر کھجاتے اور مقدمات میں شکست خوردہ دیکھا ہے۔پولیس کے کمزور تفتیشی نظام اور انوسٹی گیشن افسران پر مقدمات کے انبار اور عدالتوں میں حاضریوں سے بیزاری کا عالم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ شائد قارئین کے لئے یہ حیران کن ہو کہ ماتحت عدالتوں کی جانب سے برسوں برس حتمی چالان اور پولیس فائل جمع نہ کرانے پر قابل ضمانت وارنٹ ، ملزم کی درخواست یا احتجاج پر تفتیشی افسر کے خلاف بھیجا جاتا ہے۔ افسران کی حاضری کو لازمی بنانے کے لئے راقم نے خود کئی ایسے مقدمات دیکھے ہیں جس میں مقدمے میں نامزد ملزم کی درخواست پر تفتیشی افسر کی تنخواہ روکنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔
جیلیں اصلاح خانے بننے کے بجائے معاشرے میں جرائم کی جانب راغب عادی مجرموں کو پیشہ ور بنانے کا افسوس ناک عمل سر انجام دے رہی ہیں۔ جیلوں میں چلنے والے غیر قانونی کراٹین سیل میں رشوت کے لئے قیدیوں پر تشدد اور بند وارڈ کئے جانا اور انہیں اپنے اہل خانہ سے رشوت حاصل کرنے پر مجبور کئے جانا عبرت ناک عمل ہے۔ عدالت عظمیٰ حکومت کے تمام اداروں کو قانون کے ڈنڈے پر رکھے ۔ اس پر کسی بھی شخص کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کے کردار کو ‘سلام ‘پیش کرتے ہیں ۔ لیکن عدالت عظمیٰ اپنی ماتحت عدالتوں کے نظام کو شفاف بنانے او ر انصاف فراہم کرنے میں تاخیر کیوں کرتی رہی ہے اس کا جواب عوام ضرور چاہتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنی ماتحت عدالتوں کے مایوس کن کردار سے واقف نہ ہو۔ معزز جج صاحبان ان ہی عدالتوں سے عدالت عالیہ اور عظمیٰ تک پہنچے ہیں ۔ ماتحت عدالتوں میں ہی برسوں برس وکالت کرتے رہے ہیں ۔ عدالت عالیہ سے عظمیٰ تک سفر انہوں نے خود دیکھا ہے ۔ صرف گذارش یہی ہے کہ جیل قیدیوں اور ماتحت عدالت کے عملے کے ہاتھوں پریشان سائلین کی تکالیف کو بھی دور فرمایا جائے۔