اسلام آباد (جیوڈیسک) آسیہ بی بی سے متعلق ترجمان دفتر خارجہ کا مؤقف سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد آسیہ بی بی آزاد شہری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد آسیہ بی بی آزاد شہری ہے، وہ اپنی نقل و حرکت میں مکمل آزاد ہے۔
ترجمان دفترخارجہ نے مزید کہا کہ آسیہ بی بی پاکستان کے اندر یا بیرون ملک جہاں جانا چاہے جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو توہین رسالت کیس میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی سزا کالعدم قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
آسیہ بی بی کی سزا کالعدم قرار دینے اور رہائی کے خلاف قاری محمد سلام نے عدالتِ عظمیٰ میں نظر ثانی اپیل دائر کی تھی جسے 29 جنوری کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ مدعی فیصلے میں ایک بھی غلطی نہیں بتاسکے، انہیں فیصلے میں عام باتوں پر اعتراض ہے، فیصلے پر نہیں۔
صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔
بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔
امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔
ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو 31 اکتوبر کو سنایا گیا اور عدالت نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔