اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اور عدالتی نظاموں سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے جاتے ہیں۔
دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل اس ادارے نے اس سال اپنی جو تفصیلات جاری کی ہیں، ان میں قانون کی بالا دستی یا رول آف لاء ایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔
اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ رول آف لاء انڈکس کے مطا بق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61 ویں، سری لنکا 66 ویں اور بھارت 69 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کی فہرست میں ایک سو اٹھارہویں نمبر پر ہے۔
اس رینکنک میں پاکستان سے نیچے افغانستان ہے، جس کا 122 واں نمبر بنتا ہے۔
اس انڈکس کی پہلی دس پوزیشنوں میں سے سات پر مختلف یورپی ممالک کے نام ہیں جبکہ قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے ڈنمارک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
قانون کی بالا دستی کے حوالے سے درجہ بندی جن عوامل کی بنیاد پر کی جاتی ہے، ان میں ریاست میں نظام عدل اور احتساب اور انصاف کی باآسانی فراہمی شامل ہیں۔
پاکستان کیوں اتنا پیچھے رہ گیا؟
لاہور ہائی کورٹ کے سابق ایڈیشنل جج خاور شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ” ہمارے بہت سے قوانین انگریز دور کے بنائے ہوئے ہیں، جو موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مقدمے سول ہوں یا فوجداری کے، ان میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ ججوں کی تعداد کم ہے، جس کے باعث زیر التوا مقدمات کا انبار لگا رہتا ہے۔‘‘
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور نے کہا، ”انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ پاکستان میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول خواب ہی ہے، جہاں مقدمے کا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔ مدعی انصاف مانگتا ہی مر جاتا ہے۔ ملک میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔‘‘
قاضی انور کے مطابق، ”ہماری عدلیہ آزاد نہیں کیونکہ آزاد اور خود مختار فیصلے نظر نہیں آ رہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس کو ہی لے لیں، سب سمجھ آ جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم عالمی رینکنگ میں ابھی کہیں بھی نہیں۔
پاکستانی نظام عدل تب کہیں کھڑا ہوگا، جب اس میں وسیع تر اصلاحات اور ترامیم لائی جائیں گی، شفافیت ہو گی، عدلیہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔
”ہمارے ہاں عدالتی نظام میں اصلاحات کی صرف بات کی جاتی ہے، اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اب تو یہ شعبہ بہت اچھا بزنس بن گیا ہے۔ اس سنگین صورتحال کا تدارک آسان کام نہیں۔‘‘
پشاور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل نور عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں عدلیہ کی کارکردگی کو اچھا قرار دیا مگر ساتھ ہی مفاد پرست قوتوں کی بات بھی کی۔
انہوں نے کہا، ”عوام کے لیے عدلیہ کی پرفارمنس اچھی ہے۔ مگر بعض قوتیں ایسی ہیں، جنہوں نے عدلیہ کو مسلسل اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بیکار ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عدلیہ کی ساکھ خراب کی گئی، اس کا مذاق اڑایا گیا۔‘‘
”پوری دنیا میں عدلیہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔ یعنی عدلیہ کا نظام وہی ہوتا ہے، جو ملکی نظام چلانے والے بناتے ہیں۔ اس میں عدلیہ کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ عدلیہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے والوں اور قوانین بنانے والوں پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
نورعالم کے مطابق ”پاکستان میں انیس سو سینتالیس سے لے کر سیاسی نظام مضبوط نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے عدلیہ بھی ایک مضبوط نہیں ہو سکی۔
”بار بار آمریتیں آئیں اور سیاسی جماعتوں کی پختگی کا عمل بھی متاثر ہوتا رہا۔ ان حالات میں سیاسی پارٹیوں اور عوام کا ایک دوسرے پر اعتماد بھی ختم ہوتا گیا۔ پھر جب بھی اقتدار سیاسی پارٹیوں کو ملا، تو عدلیہ کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ وہ دور پاکستانی عدلیہ کا سیاہ دور کہلایا۔‘‘
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل نے کہا، ”یورپ اور امریکا کو دیکھیں تو وہاں حکومت کی طرف سے کوئی نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے، تو اسی وقت اس پر عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ میں بہتری کی صورت صرف یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام، پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا، عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری اور امیر اور غریب ہر کسی کی طرف سے ہر سطح پر قانون کی پاسداری ہو۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ، ’’اس کے لیے عدالتی نظام کو وسائل کی ضرورت ہے۔ ججوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ قوانین اور ضوابط میں ترامیم کی جائیں۔
”کوشش ہونی چاہییے کہ چھوٹے مقدمات ضلعی سطح پر ہی نمٹا دیے جائیں کیونکہ جب کیسز ڈسٹرکٹ کورٹ سے ہائی کورٹ میں جاتے ہیں اور تو یہ سلسلہ طویل ہوتا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ پارلیمان کی بھی ذمہ داری ہے۔‘‘