وہ جو دیا کرتے تھے دوا درد دل کی آج اپنی دوکان بڑا بیٹھے
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی حکومت منظرِ عام پر آئی ہے جس نے پاکستان کے اداروں کو مکمل آزاد کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر ادارہ بغیر کسی دبائو کے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے عدلیہ اور نیب جیسے ادارے بلا امتیاز اور بغیر کسی خوف کے اپنا کام کررہے ہیں موجودہ دور میں حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کے کیس عدالت اور نیب میں ہیں اور دونوں کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی نامور اور طاقت وار شخصیات پر ہاتھ ڈالا گیا ہے ورنہ 71سالہ دور میں ہمیشہ غریب کا احتساب ہوتا تھا اور طاقتور سے کوئی حساب نہیں لے سکتا تھا۔
صدر مسلم لیگ( ن) میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر جیل میں رانا ثنا اللہ کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی جیسے گھن گرج سے میاں شہباز شریف یہ بات کہہ رہے تھے تو مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب جمشید دستی سابقہ ایم این اے گرفتارہو ا تو اس کے ساتھ انسانیت سوز رو یہ رکھا گیا بقول جمشید دستی کے اس کی بیرک میں سانپ اور بچھو تک چھوڑے گئے بھوکا پیاسا رکھا گیا یہاں تک کہ جمشید دستی کا پروٹیکشن آرڈر تک جاری نہیں گیا اور اس وقت مسلم لیگ کی حکومت کا سورج پورے آب و تاب پر تھا تو کیا یہ عمل انتقامی نہیں تھا ؟ وقت وقت کی بات ہے خداوند کریم کا قانون بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ”جیسی کرنی ویسی بھرنی” 2جولائی کو موجودہ ایم این اے اور سابقہ صوبائی وزیر کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ہر ٹی وی چینل کی ہیڈنیوز رہی قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ رانا ثنا اللہ فیصل آباد سے لاہور کی طرف آرہے تھے کہ اینٹی نارکوٹکس نے کارروائی کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے ہیروین برآمد کی مختلف چینلز میں تو ہیروین کی مقدار مختلف بتائی جارہی ہے مگر ایف آئی آر کے مطابق رانا ثنا اللہ سے 21کلو ہیروین پکڑی گئی ہر کوئی اس خبرسے دنگ ہوگیاعوامی تحریک کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اللہ اس وقت خد ا پاک کی گرفت میں ہے کیونکہ جو ظلم اس نے ماڈل ٹائون کے بے گناہ لوگوں کو شہید کر کے کیا ہے اس کا حساب ذات الٰہی نے ہر صورت لینا تھا۔
جبکہ مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے کہ موجودہ حکومت کی انتقا می کارروائی کا نتیجہ ہے جبکہ حکومت کا کہناہے کہ ان کا گرفتاری سے کوئی لینا دینا نہیں رانا ثنا اللہ مجرم ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کرے گی فی الحال تو وہ اے این ایف کی حراست میں ہیں اور ریمانڈ پر ہیں اس کے ساتھ ساتھ مجھے ایک اور واقع یاد آرہا ہے جو کہ کچھ اس طرح سے ہے کامران مائیکل جو کہ مسلم لیگ ن کا جیالا ہے اس کی تما م تر وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستہ تھیں اور اب بھی ہیں مگر مسلم لیگ ن کے قائدین کا دوہرا معیار اس طرح ظاہر ہو رہا ہے کہ اک طرف رانا ثنا اللہ کے لیے ساری جماعت سرگرم ہے اس کے خاندان سے مل کر تسلیاں دے رہی ہے رانا ثنا اللہ کی صحت کے لیے فکرمند ہے اس کے لیے قانونی چارہ جوئی کررہی ہے اور دوسری جانب کامران مائیکل ہے جو 8فروری 2019کو گرفتا رہوا مگر مسلم لیگ کی قیادت کی جانب سے نہ تو کامران مائیکل کے حق میں کو ئی بیان آیا نہ ہی اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا گیا میرے خیال میں مسلم لیگ ن کی جماعت کو کامران مائیکل کا نام تک یاد نہیں ہے وہ کس حال میں ہے اس کی قانونی معاونت ہو رہی ہے یا نہیں اس کی صحت کیسی ہے اس کے گھروالوں کی کیا حالت ہے اس کے بچوں پر کیسا وقت گزرر ہا ہے۔
پوری جماعت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کامران مائیکل نے اپنے قائدین کی بہت خدمت کی ہے اس لیے اس کا حاصل بھی پا رہا ہے کاش اتنی خدمت ملک اور قوم کی ہوتی تو یقینا اس کا ثمر بھی بہترین ہوتا خیر میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں جتنی سرگرم مسلم لیگ ن میاں نوازشریف، رانا ثنا اللہ ،خواجہ برادرز،حمزہ اور شہباز شریف کے لیے ہے کا ش کبھی کامران مائیکل کے لیے بھی ہوتی تو کم سے کم دوہرا معیار ختم ہو جاتا حالانکہ وہ بھی تو اس جماعت کا حصہ ہے اور وفا دار ساتھی ہے مگر اس دوہرے معیار کی وجہ سے صورت حال یہ ہے مسلم لیگ ن کی جماعت کے باقی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنی وفا داریاں تبدیل کرنے پر تل چکے ہیں جو کہ مسلم لیگ کی جماعت کے لیے بڑا دھچکا ہے سو ایسے نازک حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر ونائب صدرمسلم لیگ ن ایک پیچ پر آئیں اپنی گرتی ہوئی وکٹوں پر توجہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنوں کو بچانے کے چکر میں رہیںاور دوسرے ساتھیوں کی پرو ا نہ کریں تو پھر وہ وقت دور نہیں جب اک اک کرکے ساری جماعت کلین بولڈ ہو جائے گی۔