اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ایک اسلامی ریاست میں آزادی سے رہ رہے ہیں مگر افسوس کہ یہاں کچھ اعلی افسران اور معاشرے کے چند لوگ اسلامی اقدار کو روندتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے ملک کے عدالتی نظام کو ہی دیکھ لیں کہ کیا انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے جج صاحبان فیصلے سناتے ہیں اور کس حد تک ان کئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد ہوتا ہے۔؟؟ اور کیا تمام فیصلے اسلامی رویات کو مد نظر رکھتے ہوئے سنائے جاتے ہیں؟ اس حقیقت سے آپ تمام لوگ بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام تباہی کے دہانے کی طرف جا رہا ہے کیونکہ جس طرح پاکستان میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے عدالتی نظام کی کارکردگی واضح دکھائی دے رہی ہے یہ جرائم اس وقت ہی کم ہونا شروع ہوں گے جب مجرم کو اس کے جرم کی قرار واقعی سزا ملے گی۔
جب چورکو سزا کے طور پر ہاتھ کاٹ دینے کا حکم ہوگا اسی طرح قتل کرنے والے کے متعلق نہ صرف پھانسی کا فیصلہ آئے ہو گا بلکہ اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران صرف ایک مجرم کو پھانسی دی گئی اس سے اندازہ لگا لیں کہ جرائم کی شرح میں کیسے نہ اضافہ ہو۔ ہمارے ملک میںعدلیہ کی کارکردگی تقریبا صفر ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں، بیشک یہ ایک کڑوی حقیقت ہے مگر ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ ہمارے عدالتی نظام میں بھی کچھ کا لی بھیڑیں موجود ہیں جو دوسروں کے کیس تو بڑی جلدی کھول دیتی ہیں۔
مگر اپنے بیٹوں کے کیس کھولنے کی انہیں کوئی جلدی نہیں ان کالی بھیڑوں کی لاپرواہی کی انتہا تو دیکھیں کہ ان کویہ تک نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے کے پاس اتنا پیسہ اور لگثری گاڑی کہاں سے آئی، میرے خیال میں ایسے شخص کو تو عدلیہ کا اعلی ترین عہدہ دینا ہی نہیں چاہیے جوباپ ہونے کا فرض تو نبھا نہیں سکتا وہ ملک کے عدالتی نظام کا سب سے بڑا عہدہ کیسے سنبھالے گا؟ یہ شاہد ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ اب اگربات کی جائے توہین عدالت کی۔ تو یہ اعزاز صرف پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ یہاں عدالت اپنے آپ کو ایک مقدس گائے سمجھتی جبکہ دیگر ممالک میں عدلیہ کے متعلق آزادی اظہار رائے ہے اور ہر شخص عدلیہ کی کارکردگی کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے مگر پاکستان ہی شاہد وہ واحد ملک ہیں جہاں عدلیہ کے متعلق بات کرو تو توہین عدالت کا کیس بن جاتا ہے۔
Imran Khan Imran Khan
چند دن پہلے عمران خان نے عدلیہ کی کارکردگی کے متعلق اپنی رائے دی جس کے بعد ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس اشو کر دیا گیا اور عدالت میں پیشی کا حکم دے دیا گیا۔ اسی طرح کبھی ایک وذیر اعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوجاتا ہے کبھی دوسرے کو مگر جب کوئی پاکستانی اپنے ملک کے خلاف بات کرتا ہے تب عدالت کیوں نہیں نوٹس جاری کرتی؟ کمزور پر تو ہر کوئی وار کرتا ہے مزا تو تب ہے جب طاقتور کے سامنے دلیری کا مظاہری کرتے ہوئے عدالت نوٹس جاری کرے۔ ایسا نوٹس جاری کرنے کے بعد شاید آئندہ کے لیے چیف جسٹس صاحب کا کراچی جانا نا ممکن ہو جائے۔
ہمارپیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ قومیں تباہ برباد ہو جاتیں ہیں جہاں کمزور کو سزائیں دی جائیں اور طاقتور کو چھوڑ دیا جائے۔ اب اگردور خلافت کے حکمرانوں کا انصاف دیکھنا ہو تو یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے جس میں عام انسان ہر حکمران اور جج کے خلاف بول سکتا تھا ایسا ہی واقعہ کچھ اس طرح سے ہے۔ امیر المومینین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حمص کے دورے پر تشریف لے گئے، وہاں کے لوگوں نے گورنر سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے خلاف شکایت کا پنڈورا بوکس کھول دیا۔ پہلی شکایت یہ کی۔ کہ لوگوں کے معاملات نپٹانے کیلئے دن چڑھے آتے ہیں۔دوسری شکایت یہ کی۔ کہ رات کو یہ کسی کی بات کا جواب ہی نہیں دیتے۔ تیسری شکایت یہ کی۔ کہ ہر مہینے میں ایک دن شام تک گھر سے ہی نہیں نکلتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ سے جواب طلبی کی۔آپ نے ارشاد فرمایا۔ کہ امیر المومینین میرا دل تو نہیں چاہتا کہ حقائق سے پردہ اٹھاؤں لیکن اب اس کے بغیر، کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ لہذا پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ میرے پاس، کوئی خادم نہیں میں صبح آٹا خود گوندھتا ہوں پھر تھوڑا انتظار کرتا ہوں تاکہ اس میں خمیر پیدا ہو جائے پھر روٹی پکاتا ہوں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وضو کر کے لوگوں کے معاملات نپٹانے کے لیے چلا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے گھر سے نکلنے میں کچھ تاخیر ہو جاتی ہے۔ ساتھیوں نے جو میری دوسری شکایت کی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے دن لوگوں کیلئے اور رات اپنے رب کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ میں رات کو اللہ تعالی کی عبادت، میں مصروف رہتا ہوں۔ جہاں تک تیسری شکایت کا تعلق ہے کہ میں مہینہ میں ایک روز دن بھر کے لیے باہر نہیں نکلتا اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ میرے پاس پہننے کیلئے کپڑوں کا صرف ایک جوڑا ہے۔ جو مہینے میں صرف ایک دفعہ دھوتا ہوں۔ جب وہ خشک ہو جاتے ہیں تو دن کے پچھلے پہر زیب تن کر کے باہر آ جاتا ہوں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا چہرہ اپنے متعین کردہ گورنر کے جواب سن کر خوشی سے تمتما اٹھا اور، انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو انکے اعتماد پر پورا اترنے کی توفیق عطا کی۔ آخر میں عرض کرنا چاہوں گا کہ چیف جسٹس کو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینی چاہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدامات کرنے چاہیں جس سے عام آدمی کو کم وقت میں سستا انصاف میسر ہو۔