آج لکھنے کو بہت سارے موضوع تھے جن میں ریٹائرڈ جنرل کا ایک صحافی کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ ، سپریم کورٹ کا گیس کی قیمتوں سے متعلق فیصلہ اور حکومتی ایوانوں کے اندر پکنے والی سیاسی کھچڑی مگرجمعیت علماء اسلام سندھ کے سیکریٹری اطلاعات جناب برادرم اسلم غوری صاحب کا میرے نام لکھا ہوا ایک اہم خط جسے آپ سب کی دلچسپی کی خاطر شائع کر رہا ہوں۔
جناب محترم پیارے بھائی روہیل اکبر صاحب ! اﷲ رب العزت نے آپ کو یہ شرف بخشا ہے کہ آپ صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں ،قلم آپ کے پاس اﷲ کی ایک ایسی امانت ہے جس کے ذریعے اس نے انسان کو لکھنا سکھلایا’ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں بھی اﷲ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ”اقرأ وربک الاکرم٭ الذی علم بالقلم” آج یہ قلم آپ کے پاس ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ ہر قسم کے مفادات اور تعصبات سے بالاتر اور پوری طرح غیر جانبدار رہتے ہوئے بے خوف اور بے باک ہوکر اس قلم کا مثبت اور تعمیری طورپر بھرپور استعمال کریں ۔آپ سے زیادہ کون اس بات سے واقف ہوگا کہ اس وقت ہمارا وطن عزیز بد ترین سیاسی’ مذہبی’ معاشی ومعاشرتی بحران سے دو چار ہے اور یہ بات یقیناً آپ پر گراں گزرتی ہوگی ملک وقوم کی سلامتی وترقی کیلئے آپ جہاد بالقلم کے ذریعے جو کام کررہے ہیں وہ انتہائی لائق تحسین ہے اور اس کا اجر وثواب اﷲ پاک آخرت میں ضرور آپ کو عطا فرمائے گا۔(آمین)
جانب محترم ! ہم تاریخ کے ایک بدترین دور سے گزررہے ہیں’ ایسے میں ملک وقوم کی سلامتی اور تحفظ ہم سب کا اولین فریضہ ہے’ پاکستان کا وجود عطیہ خداوندی اور نعمت عزیز ہے لیکن مملکت خداداد روزقیام سے ہی مشکلات کے حصار میں ہے ۔تمام مصائب و آلام کی بنیاد قومی کج روی،مقتدرہ طبقے کی کوتاہ اندیشی ،غیر منصفانہ نظام معیشت اور ظالمانہ سماجی ماحول ہے۔قومی سیاسی جماعتوں نے اصلاح احوال کی مقدوربھر کوششیں کیں لیکن انگریزی دور کامراعات یافتہ طبقہ اور فیوڈل کلچر کی پر وردہ سیاسی کلاس کسی انقلابی اقدام کی اہل ثابت نہ ہو سکی ۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیا دت میں ایک راست فکرمحدود طبقے نے نفاز اسلام کیلئے مقدوربھر کوششیں کیں مگرمحلاتی سازشوں کے با وصف 1948 ء میں قرارداد مقاصد کی ترتیب وتصویب کے سوا کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی ۔قومی سیا سی کلچر غلامانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے ایسے حوصلہ شکن اور پژ مردہ ماحول میں قومی مقاصد اور عوامی فلاح کی جدوجہد کیلئے 1956ء سے علما ء حق کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء اسلام کے نام سے عزم نو کے ساتھ بر سرِکار ہے ۔
جمعیت علمائے اسلام اس وقت ملک وقوم کو مصائب ومشکلات کے بھنور سے نکالنے کیلئے عملی طورپر کوشاں ہے اور اس مقصد کیلئے بتدریج اور مرحلہ وار منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے جمعیت علمائے اسلام کو ملکی تاریخ میں اب تک صوبہ خیبرپختونخواہ میں دو مرتبہ وزارت اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں دو مرتبہ قائد حزب اختلاف’ بلوچستان میں اسپیکر’ ڈپٹی اسپیکر اور سینئر وزیر کے مناصب’ سینیٹ میں حکمران اتحاد کے چیف وہب اور اپوزیشن لیڈر سمیت پنجاب وسندھ سے پارلیمانی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔ اس طرح سندھ میں سال2002ء میںJUIکے چار ارکان صوبائی اسمبلی اور ایک رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام سندھ میں اہم ترین سیاسی جماعت ہے۔
جس نے لسانیت وفرقہ واریت سے بالاتر ہوکر ہمیشہ سندھ کے عوام کے مسائل پر بھرپرور آواز اٹھائی ہے،جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہمارے علماء سندھ اس وقت کئی محاذوں پر کام کررہے ہیں خانقاہوں میں اصلاحی کام ہو رہا ہے مدارس میں علمی کام ہورہا ہے، سندھ کی تمام حق پرست خانقاہوں کی حمایت جے یو آئی کو حاصل ہے،ہالیجی شریف، امروٹ شریف، بیر شریف، سومرانی شریف،جرار پہوڑ شریف،دین پور شریف اور مولانا محمد حسن شاہ پور چاکر کے سجادہ نشین جے یو آئی کے ذمہ داروں میں شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد علماء سندھ نے جمعیت کے اسٹیج سے سیاسی خدمات سرانجام دیں اور ان میں فعال کردار حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی اور حضرت مولانا عبدالکریم قریشی بیر شریف والے نے اداکیا۔حضرت امروٹی تاحیات جمعیت علماء اسلام سندھ کے امیر رہے اور اس طرح بیر شریف والے بھی مرکزی امیر رہے ہیں اوروفات تک جماعت کے مرکزی سرپرست اعلیٰ تھے’ حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی کے بعد مولانا نور محمد سجاولی، حضرت مولاناغلام قادر پنہور ، مولانا محمد مراد ہالیجوی سمیت بڑے بڑے پیران طریقت اور علماء کرام نے بھی سندھ میںجمعیت علماء اسلام کو منظم کرنے کے لئے فعال سیاسی کردار ادا کیے ہیں، پاکستان بننے کے بعد جتنی تحریکیں چلیں تحریک ختم نبوت ہو’ تحریک نظام مصطفی یا تحریک بحالی جمہوریت(MRD)ان تمام تحریکوں میں علماء سندھ نے صف اول کا کردار ادا کیا اور بہت بڑی قربانیاں دیں اگر ان کی قربانیوں کو نظر انداز کردیاجائے تو تاریخ نامکمل ہوگی۔
PPP
جے یو آئی وہ واحد سیاسی قوت ہے جس نے1970ء اور 1977ء کے عام انتخابات میں بھٹولہر کے دوران ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سمیت پی پی پی کے مضبوط جاگیردار امیدواروں کا بھرپور مقابلہ کیا اور سکھر کی تینوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر جے یو آئی کے امیدوار حضرت سائیں عبدالکریم بیر شریف والے اور حضرت محمد شاہ امروٹی پی پی پی امیدوار کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار تھے ۔ تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی کی تحریک میںجے یو آئی کی قربانیاں پی پی پی سے کم نہیں ہیں۔ اور بیشتر اضلاع میں ایم آر ڈی کنوینر بھی جے یو آئی کے قائدین تھے’ سکھر جیل میں قید سیاسی کارکنوں میں جے یو آئی کے عہدیداروں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے ایک سرگرم کارکن تھے۔
ایم بی بی ایس فائنل کے امتحان کے دوران آپ کو پابند سلاسل کردیاگیا ، سندھ کے سیاسی پس منظر اور ماضی پہ ایک نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتاہے کہ جمعیت علماء اسلام کا ووٹ بینک دن بدن بہتر ہورہاہے ۔ پی پی پی کے دور عروج میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مقابلے میں اگر کوئی امیدوار آیا تھا تو وہ جمعیت علماء اسلام کا ہی تھا جبکہ پی پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کی آبائی نشست پر ان کا مقابلہ ہمیشہ جے یو آئی کے امیدوار نے کیا ہے۔1970ء میں جے یو آئی کی جانب سے ڈاکٹر خالدمحمود سومروکے والد مولانا علی محمد حقانی نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مقابلے میں انتخاب لڑا ۔ 1988ء میں بینظیربھٹومرحومہ کے مقابلے میں ڈاکٹر خالدمحمود سومرو نے آٹھ ہزار ووٹ لئے اور بینظیربھٹومرحومہ نے ایک لاکھ، 1990ء میں ڈاکٹر خالدمحمود سومرو نے اٹھارہ ہزار اور بینظیربھٹومرحومہ نے ستر ہزار ووٹ لئے۔ 2002ء میں بینظیر بھٹو مرحومہ کے کزن نے 54ہزار ووٹ اور ڈاکٹر خالدمحمود سومرو نے 27ہزار ووٹ لئے ۔
ڈاکٹر خالد سومرو نے بھٹو خاندان کی آبائی نشست پر 27000 ووٹ حاصل کرکے ثابت کردیا تھا کہ جے یو آئی کا گراف سندھ میں بڑھ رہا ہے،مارچ2006ء میں ڈاکٹر خالدمحمود سومروسندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے اور6 سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد11 مار چ 2012 ء کو ریٹائر ہو گئے ۔ ایوان بالا میں پہنچنے کے بعد انہوںنے اسلامی اقدار’ نظریہ پاکستان اور سندھی عوام کے مسائل پر بھرپور آواز بلند کی، سندھ کے عوامی ایشوز پر سب سے زیادہ آواز اٹھانے کا اعزاز ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو حاصل ہے’ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کے حقوق کی بات ہو یا 13ہزار پرائمری اساتذہ کی مستقلی کا معاملہ ہو’ سندھ سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی بحالی کا مسئلہ ہو ، قبائلی تصادم میں انسانی جانوں کے ضیاع کا معاملہ ہو یا سندھ یونیورسٹی و مہران یونیورسٹی کی بندش کا معاملہ ہو، سندھ کے ہر سلگتے ایشوز پر ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے ایوان بالا میں جرأت مندی کا مظاہرہ کیا۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈ کے علاوہ ذاتی طور پر مخیر حضرات کے تعاون سے سیلاب زدہ علاقوں میں10کروڑ سے زائد کا فنڈز تقسیم کیا،100گھر تعمیر کرکے متاثرین کے حوالے کردیئے جبکہ20مساجد بھی تعمیر کرائے ہیں” لاڑکانہ کے مضافات میں7بڑے گائوں کو گیس کی بڑی اسکیمیں اور 2گائوں کو پانی کی فراہمی کی اسکیم منظور کرائی گئیں، 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کے امیدواروں کی سندھ کے مختلف شہروں میں کامیابی نمایاں رہی اور مجموعی طور پر 300 سے زائد ناظم، نائب ناظم اور کونسلرز جے یو آئی کے منتخب ہوئے تھے۔کراچی، حیدرآباد، سکھر، جیکب آباد، کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی، شکارپور، سجاول سمیت سندھ کے تمام شہروں میں جے یو آئی کا ایک مؤثر ووٹ بینک ہے۔ 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں کئی نشستوں پر جے یوآئی کے امیدوار نہایت کم تناسب سے رہ گئے تھے۔
جمعیت علماء اسلام سندھ کے عوام کو درپیش اہم مسئلے قبائلی جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے بھی ہمیشہ کوشاں رہی، مئی2005ء میں ڈاکٹرخالد محمود سومرو کی قیادت میں100جید علماء کرام کا قافلہ امن مشن پر روانہ ہوا، جس نے جتوئی اور مہر قبیلے کے درمیان مصالحت کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا جبکہ خیرپور کی شیخ وعباسی برادری ،پھلپوٹواورمیمن برادریوں کو صلح پر آمادہ کیا ،اس کے ساتھ لکھن اور مہر برادری اور پھر ایجا اور کوری برادری سمیت متعدد قبائل میں شرعی اصولوں کے مطابق تصفیے کراکے سندھ میں قبائلی جھگڑوں کو ختم کرانے میں اپنا حصہ شامل کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے قومی بحران کے ہر کڑے امتحان میں قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے مفکراسلام حضرت مولانامفتی محمود کی بحیثیت وزیر اعلیٰ اوربطورقائد حزب اختلاف قومی خدمات ہماری ملی سیاسی تاریخ کازرّین باب ہے اورجمعیت علماء اسلام سندھ کی سیاست میں سرگرم عمل واحد نمایاں سیاسی مذہبی قوت ہے جس کے سندھ بھر میں ہر گائوں ،دیہات اور UCکی سطح پر باقاعدہ تنظیم موجود ہے ۔
جے یو آئی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی صفوں اور قیادت میں کوئی وڈیرہ’ جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں بلکہ سب متوسط وغریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نظریاتی کارکنان ہیں آپ سے التماس ہے کہ آپ اپنے کالموںاور تجزیوں میں جمعیت علماء اسلام کے منشور’ مقاصد’ سرگرمیوں’ عملی کوششوں اور پیغامات کو اجاگر کرکے اسلام اور پاکستان کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔