تحریر: سید انور محمود جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے تین روزہ اجتماع کا اصل مقصد تو 2018 کے انتخابات میں کامیاب ہو کر صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت قائم کرنا ہے، لیکن اس کانفرنس کے منعقد ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس کانفرنس کے دو اور بڑئےمقاصدتھے، جو اس کانفرنس میں بڑئے واضع طور پر نظر آئے:۔
پہلا مقصد: طالبان دہشتگردوں کو بغیر کسی پوچھ گچھ یاسزا کے پاکستانی معاشرئے کا حصہ بنانا۔
دوسرا مقصد: سعودی عرب کو جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی فراہمی۔
صد سالہ جمیت کانفرنس کے اعلان یا اس کے بعد کانفرنس سے پہلے تک کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس کانفرنس کا پہلا مقصد70 ہزار بے گناہ انسانوں کے قاتلوں طالبان دہشتگردوں کو بغیر کسی پوچھ گچھ یاسزا کے پاکستانی معاشرئے کا حصہ بنانا ہوگا۔ کانفرنس کے شرکا نےاپنی اس بات کو کہنے کےلیے 6 اپریل کا دن چنا، اس دن لوگوں کا زیادہ دھیان سعودی وفد کی طرف تھا۔ 6 اپریل کوجمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفورحیدری جوپاکستان کی سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین بھی ہیں پشاورپریس کلب میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران طالبان دہشتگردوں کو اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی ، ان کا کہنا تھا کہ ”ہم طالبان کو جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں”۔ مولانا کی اس پیشکش کے جواب میں ، میں نے ایک مضمون ’’جےیو آئی (ف) کی بلی تھیلےسے باہر‘‘ لکھا تھا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اس پیشکش کا بھرپورجواب دیا تھا، اس مضمون میں ایک جگہ لکھا ہےکہ ’’مولانا عبدالغفورحیدری جن طالبان دہشتگردوں کےہمدردبنے ہوئے ہیں، ان کے سہولت کار بھی ہیں اور اب ان کو اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرنا چاہتے وہ اب تک 70 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو مار چکے ہیں‘‘۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری کی قاتلوں کی اس پیشکش کے بارئے میں شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام (ف) طالبان دہشتگردوں کا ہی ایک سیاسی دھڑا ہے۔ طالبان دہشتگرد گذشتہ سال سے اب تک دو ملٹری آپریشن کی وجہ سے ختم تو نہیں ہوئے ہیں لیکن وہ کافی کمزور ہوچکے ہیں اس لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) اب اُن دہشتگردوں کوبچانے کا راستہ تلاش کررہی ہے ۔ یہ تھا جمعیت علمائے اسلام (ف) کی صد سالہ جمیت کانفرنس کا پہلا مقصد کہ وہ اپنے دہشتگرد بھائیوں کو کیسے بچائے۔
صد سالہ جمیت کانفرنس کے اعلان سے یہ تو سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کانفرنس میں سعودی عرب سے امام کعبہ اور سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیربھی شامل ہونگے، کانفرس کے منتظمین کا پروگرام ایسا تھا کہ اس کانفرنس میں زیادہ سےزیادہ لوگوں کو جمع کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے کانفرنس کے پہلے دن جمعہ کو امام کعبہ سے جمعہ کی نمازپڑھوائی، بلا شبہ امام کعبہ کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں تعداد ہزاروں میں تھی ۔ ایک عام مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ عمرہ یا حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جائے اور وہاں جاکر حرمین شرفین کے اماموں کے پیچھے اپنی نمازیں ادا کرئے، لیکن غربت کی وجہ سے شاید ہر ایک کے لیےایسا ممکن نہیں ہوتا ہے لہذا وہ اپنی مذہبی پیاس کوآئے ہوئے امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھ کر پوری کرلیتا ہے، اور مذہبی سوداگر عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب ان کے سیاسی میلے میں شرکت کرنے آئے ہیں۔سعودی وزیر اور امام کعبہ دونوں سعودی حکومت کی اجازت سے آئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان کا مقصد امام کعبہ کے زریعے عوام کا بڑا ہجوم دکھاکر سیاسی فائدہ اٹھانا تھا جبکہ سعودی وزیر اور امام کعبہ کا اس سیاسی میلے میں شرکت کا مقصد قطعی یہ نہیں تھا کہ وہ صرف نمازیں پڑھایں بلکہ ان کی آمد کا مقصدسعودی عرب کے سیاسی اور عسکری مفادات کا حصول تھا۔ معزز مہمانوں نےاس سیاسی کانفرنس میں پاکستان اور سعودی حکومتوں کی مرضی سے شرکت کی تھی۔
سعودی وزیر اور امام کعبہ کے آنے کا مقصد تھا کہ ’’سعودی عرب کی قیادت میں بنے ہوئے 39 ملکوں کے’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کی سربراہی سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کریں اور سعودی عرب جن ملکوں کےخلاف ہے ان کے ساتھ فوجی جنگ میں پاکستانی فوج لڑئے‘‘۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھی مذہب کا استمال ہوا ۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’ایک اسلامی فوجی اتحاد سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل دیاگیا جس میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں شامل ہیں۔ بقول ان کے اس پلیٹ فارم پر مسلمان ملک یکجا ہوگئے ہیں، دنیا میں دہشت گردی اور فساد کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، جو دشمن بھی سامنے آئے گا اسلامی فوجی اتحاد اس کا مقابلہ کریگا۔امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم آل طالب کا کہنا تھا کہ دین اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اس کا کسی دہشتگردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،دہشت گردی کا سبب اسلام کی غلط تشریح ہے، پاکستان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، امت کو متحد ہوکر مقدس مقامات کی حفاظت کرنا ہوگی، دہشت گردی ملک کی معیشت کو تباہ کرتی ہے، تمام علماء دہشت گردی کیخلاف کھڑے ہیں۔ امام کعبہ نے مزید کہا کہ پاکستان امت مسلمہ کی حفاظت کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امام کعبہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل راحیل شریف دہشتگردی کی صورتحال کو سمجھتے ہیں اس لئے ان کا کردار اہم ہے اور وہ مسلم دنیا میں امن لائیں گے،فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی جگہ کام کرسکتا ہے اور راحیل شریف کا فوجی اتحاد کا سربراہ بننا پاکستانیوں کیلئے قابل فخر ہے‘‘۔
سات سے نو اپریل کے اجتماع میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے زریعےمذہب کے نام پر اپنی دوکان سجائی اوراپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا،اس کانفرنس میں سعودی مہمانوں کو لانے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اسلام کی سچی پیروکار ہے۔ عام لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا بظاہر کوئی زریعہ معاش نہیں ہے، پھر بھی پجیرومیں گھومتے ہیں،اچھا کھاتے ہیں اور اچھا پہنتے ہیں، کیسے؟ان لوگوں کےلیےجواب یہ ہے کہ مولانا مذہبی چورن بیچنے کے اچھے دوکاندار ہیں۔سعودی مہمانوں کا اس سیاسی میلے میں آنے کا اپنا مقصد تھا وہ صرف نمازیں پڑھانا ہی نہیں تھا بلکہ ان کا اصل مقصدپاکستانی عوام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ اسلام کے نام پر پاکستانی فوج کو سعودی عرب کی جنگ لڑنی چاہیے، جبکہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر معزز امام کعبہ نے شاید بحالت مجبوری کانفرس کے آخری دن دعا فرمائی جو مولانا فضل الرحمان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی معاشی اور سیاسی ضرورت تھی ورنہ یہ سعودی عرب کی سرکاری پالیسی کے خلاف تھی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف تو اپنی نئی ملازمت پر پہنچ چکے ہی، لیکن اگر نواز شریف حکومت نے سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کے لیے پاکستانی فوج کو بھیجا تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہوگی۔ مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے جبکہ سعودی عرب کے مطابق اس اتحاد میں اب تک 41 ممالک شامل ہوئے ہیں۔ سعودی قیادت میں بننے والے ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں ایران، عراق، شام اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ملک شامل نہیں ہیں اور پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں۔ ہمارئے دو پڑوسی بھارت اور افغانستان تو ہمارئے کھلے مخالف ہیں، ایک پڑوسی ایران بھی ہے جو پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی طرف جھکتا جارہا ہے۔ طالبان اور دوسرئے دہشتگرد ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود اگر پاکستان سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں شامل ہوکر مشرق وسطی میں ہونے والی لڑائیوں میں شرکت کرتا ہے تو یہ پاکستانی حکمرانوں کی ایک بہت بڑی غلطی ہوگی ۔
نوشہرہ میں 7 سے9 اپریل کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ کا اصل مقصد 2018 کے انتخابات کی تیاری اور اس کے ساتھ ہی دو بڑئے مقاصد اور بھی تھے، طالبان دہشتگردوں سے اپنی وفاداری کا اظہار اور سعودی عرب کے عسکری مقاصد کی مدد۔یہ کانفرنس جو جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ یوم تاسیس کے طور پر منائی گئی عوام کے ساتھ ایک کھلا دھوکا تھا ، کیونکہ ابھی سو سال مکمل نہیں ہوئے ہیں، باقی رہامولانا اورسعودی وفد کا مذہب کی آڑ میں پاکستانی عوام کا شکار تو پاکستانی عوام اب اس کھیل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ 7 سے9 اپریل کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ دراصل کچھ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیےایک سیاسی میلہ تھا اور کچھ نہیں۔