5 جولائی 1977 پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کے خلاف سیاہ ترین دن ہے۔جب چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے ملک کے ایک منتحب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔جنرل ضیاء الحق نے اپنی پہلی نشری تقریر میں وعدہ کیا کہ وہ نوے دنوں کے اندر عام الیکشن کر ا کر مارشل لاء ختم کردیں گے لیکن انھوں نے 90 دنوں میں الیکشن کرانے کا وعدہ پورا کیا اور نہ ہی ملک میں جمہوریت بحال کی کو بلکہ دس سال تک ملک کو اپنی آمرانہ پالیسیوں کے ذریعے اپنی منشاء اور خواہشات کے مطابق چلایا ۔جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا بوریا بستر گول کرکے نہ صرف پاکستان میں اپنی آمرانہ حکومت قائم کی بلکہ ملک کے مقبول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ پھانسی چڑھا دیا۔ پھانسی کا یہ فیصلہ آج بھی عدلیہ کی تاریخ میں متنازع حیثیت رکھتا ہے۔
جنرل ضیاء نے مارشل لگانے کے دو تین ہفتوں بعد سابق وزیراعظم بھٹو کو گرفتار کیا جس کے خلاف عوام نے پرزور احتجاج کیا تو انھیں رہا کردیا گیا۔ لیکن تین ستمبر کو دوبارہ گرفتار کرکے بھٹو کو احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں ملوث کردیا یہ قتل مارشل لاء سے تین سال پہلے گیارہ نومبر 1974ء میں ہوا تھا۔اس مقدمے میں بھٹو کی بنائی ہوئی ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بن کر بھٹو کے خلاف گواہی دی تھی جس کی بنیاد پر جسٹس مولوی مشتاق کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے بنچ نے اٹھارہ مارچ 1978ء کو اپنے فیصلے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی جس کے ایک سال بعد چار اپریل 1979ء کو رات کے اندھیرے میں بھٹوکو پھانسی دے کر راتوں رات بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان گڑھی خدابخش میں دفن کردیا اورنمازہ جنازہ میں خاندان کے کسی فرد کو بھی شامل نہیں ہونے دیا گیا۔اس کے بعد جنرل ضیاء 9 سال تک زندہ رہے اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک رہے لیکن بھٹو کی روح نے جنرل کو ایک پل بھی چین سے جینے نہ دیا اقتدار میں رہتے ہوئے بھی جنرل ضیاء کو گڑھی خدابخش میں دفن بھٹو اور اس کے چاہنے والوں کی زبردست مزاحمت کا سامنا رہاپڑا۔حکومت کرنے کیساتھ مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے جنرل ضیاء سترہ اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اس حادثے میں ان کیساتھ دیگر اہم شخصیات کے علاوہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر بھی ہلاک ہو گئے تھے۔اس طرح بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کرنے والے جنرل ضیاء کا اقتدار اور دور کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ان واقعات کو چالیس سال گذر چکے ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں بھٹو فیکٹر آج بھی موجود ہے تو جنرل ضیاء کے مارشل لائی اور آمرانہ اقدامت کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں ۔خاص طور جنرل ضیاء نے پاکستان کی سیاست میں انھوں نے اپنی ٹیم میںنئے لوگ نیا کلچر داخل کیا۔پہلے انھوں نے قومی اسمبلی کے متبادل کے طور پر مجلس شوریٰ بنائی جس میں اپنے من پسند لوگوں کو شامل کرکے نظام حکومت چلانے کی کوشش کی لیکن اسے ملک کے اندر اور بیرونی دنیا پذیرائی نہ ملی بلکہ اسے ناپسند کیا گیا۔لیکن جنرل ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کی ہوس میں کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور طول دینے کے لیے جنرل ضیاء نے مارشل لاء کے سخت ترین قوانین نافذ کیے مارشل لاء اور اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو قید کرکے سخت ترین تشدد کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ملک بھر کی جیلوں اور شاہی قلعے میں ہزاروں سیاسی قیدی ڈال دئیے گئے۔
ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرکے انھیں سزائیں دی جاتی تھیں۔سیاسی کارکنوں کو ننگے بدن کوڑے مارے گئے۔ملک بھر میںسیاسی کارکن اپنی جانیں بچانے کے لیے انڈر گرائونڈ چلے گئے۔اخبارات پرسخت سنسرشپ عائد کردیا گیا ۔یہ کہا جاسکتا ہے پاکستان کی تاریخ میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء بدنام اور ظالم ترین مارشل لاء تھا۔اس کے باوجود سیاسی جماعتوںاور سیاسی کارکنوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔آخرکار1981ء میںجمہوریت کی بحالی کے لیے9 سیاسی جماعتوں نے نوابزادہ نصراللہ خاں کی قیادت میںتحریک بحالی جمہوریت (M.R.D.) کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا۔جس نے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میںبحالی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے رضاکارانہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیااس پلیٹ فارم سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں گرفتاریاں پیش کرتے جس سے ملک کی جیلیں اور تھانے سیاسی کارکنوں سے بھر گئے۔
راقم الحروف کو بھی ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے بحالی جمہوریت کے لیے 23 نومبر1983ء کو سیالکوٹ کے چوک علامہ اقبال میں گرفتاری پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔یہ شہر کا مرکزی اور مصرف چوک ہے گرفتاری پیش کرنے کا وقت سہ پہر پانچ بجے ہوتا تھا سخت ترین سردی کا موسم تھا چوک میں چاروں طرف ہزاروں لوگ موجود تھے لیکن ایک ہو کا عالم تھا اتنا بڑا مجمع لیکن کسی کے سانس لینے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی اگر کوئی معمولی سی بھی حرکت کرتا تو پولیس اسے گرفتار کرلیتی تھی عوام منتظر تھے کہ گرفتاری پیش کرنے والا کس جانب سے چوک میں آئے گا میرے ساتھ پیپلز پارٹی کے سابق ممبر قومی اسمبلی خورشید عالم چیمہ، چودھری شاہد حمید وڑائچ سابق وزیر آزاد کشمیر،پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ملک محمداسلام آف بھگوال اعوان اور دیگر لوگ موجود تھے اور ہم چوک کے کی مغرب کی طرف کھڑے تھے جب میں نے دیکھا کہ چوک کے چاروں اطراف میں عوام کا ہجوم جمع ہو چکا ہے تو میں اچانک نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے چوک کے درمیان آگیا اور مارشل لاء کے خلاف نعرے لگانے شروع کردئیے پولیس ملازمین سے بھری ہوئی ایک گاڑی میرے پاس پہنچ گئی پولیس نے مجھے گھیر لیا انسپکٹر مرزا ظفرعالم نے مجھے ہتھکڑی لگائی اور بڑی تیزی کیساتھ پولیس تھانہ کوتوالی میں پہنچا دیا وہاں مجھے ایک رات رکھا گیا علی الصبح نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی کے راہنما صفدربٹر میرے لیے ناشتہ اور اخبارات لے کر آئے جن میں میری گرفتاری کی خبریں تھیں۔
میں نے ناشتہ وغیرہ کیا تھوڑی دیر بعد مجھے گاڑی میں ضلع کچہری لے جایا گیا جہاں ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے بعد مجھے ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں پہنچا دیا یہاں مجھے ایک ماہ کے قریب قید کاٹنا پڑی۔سیالکوٹ جیل میں میرے ساتھ پیپلز پارٹی کے رائورشید سابق آئی جی پولیس، میاں احسان الحق لاہور،افتخار شاہد،سید منظور گیلانی، لالہ محمد فاضل ،شیخ بشیر احمد گوجرانوالہ،سلیمان سڈل،ادریس باجوہ،چودھری شہناز ایڈووکیٹ،ملک فیض محمد، یوسف طور ایڈووکیٹ شگرگڑھ ،سائیں محمد رفیق دھاریوال اور دوسرے لوگ تھے۔ہمیں یہاں بی کلاس کی سہولت حاصل تھی،ہمارا باہر کی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ اخبارات تھے۔چند ایک لوگوں کے پاس چھوٹے ریڈیو تھے جس کے ذریعے ہم لوگ بی بی سی کی خبریں سنتے تھے جو ایم آرڈی کی سرگرمیوں کو بھرپور کورکرتا تھا۔مقامی میڈیا پوری طرح سنسر شپ کا شکار تھا۔جس میں سیاسی خبریں بالکل ہی نہیں ہوتی تھیں۔بعض اوقات پورا اخبار بغیر خبروں کے شائع ہوتا تھا صرف اخبار کی پیشانی ہوتی تھی۔کیونکہ اخبار چھاپنے سے پہلے سنسر شپ کے لیے دکھانا ہوتا تھا جہاں فوجی حکام تمام سیاسی خبریں اکھاڑ دیتے تھے جس کے بعد اخبار میں صرف پیشانی ہی باقی رہ جاتی تھی اس طرح کئی بار اخبارات خبروں کے بغیر ہی چھاپنا پڑتے۔ ان اخبارات میں پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار مساوات اور حیات اور دیگر اخبارات بھی ہوتے جن میںپیشانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ سنسر کیوجہ سے باقی اخبارات میں بھی کسی قسم کا کوئی سیاسی مواد نہیں ہوتا تھا اس کے باوجود لکھاری اور کالم نویس اپنے مضامین اور کالموں اور تحریروں میں اشاروں کنایوں اپنی بات قارئین تک پہنچاتے تھے۔
میرا خیال ہے کہ انھی دنوں میں ملک کے معروف کالم نویس عبدالقادر حسن نے اپنے کالم کا نام ؛غیرسیاسی باتیں؛ رکھا تھا۔مارشل لاء کے قوانین کی بے شمار سختیوں اور پابندیوں کے باوجود بحالی جمہوریت کی تحریک پورے ملک میں پھیل گئی جس کو بیرونی دنیا میں قبولیت ملی اس کے نتیجے میں دنیا کی طرف سے جنرل ضیاء پر مارشل لاء ختم کرکے جمہوریت بحال کرنے کا دبائو بڑھا۔تو جنرل ضیاء نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے۔ سیای جماعتوں اور سیاستدانوں نے پابندی کیوجہ سے اس غیر جماعتی الیکشن میں حصہ نہ لیا۔جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں ایک نیا دور شروع ہوا جس میں پرانے روایتی سیاستدانوں کی بجائے نئے غیرسیاسی لوگ داخل ہوگئے جن میں اکثریت سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی تعداد تھی ان لوگوں میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، راجہ ظفرالحق ،سیدفخررامام،بیگم عابدہ حسین، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت حسین،جاوید ہاشمی، سابق وزیر داخلہ چودھری نثار، پی ٹی آئی کے مرکزی راہنما جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیںشاہ محمود قریشی ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی ،خواجہ محمدآصف سابق وزیرخارجہ کے والد خواجہ محمد صفدر،میاں منظور وٹو، سابق سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین ،سابق وزیراعظم محمد خاں جونیجو، اور دوسرے بہت زیادہ سیاستدان ہیں جو ضیاء دورمیں سامنے آئے ان میں سے بہت زیادہ لوگ ہیں جو اس وقت پاکستان کی سیاست میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
یہاں ایک دلچسپ بات قابل ذکرہے کہ پی ٹی آئی کے راہنما ڈاکٹر بابراعوان نے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کی اور جنرل ضیاء کو اپنے گھر دعوت بھی دی یہی بابراعوان پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر قانون بھی بنے۔جنرل ضیاء مرحوم کے غیرجماعتی انتخابات میں جہاں سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوئی تو اسی الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے لیے سرمائے کا استعمال شروع ہوا جو ہماری ملک کی سیاست میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے عام ووٹرز ، کونسلر اور ارکان اسمبلی سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سرمایہ استعمال ہوتا ہے جس کی بازگشت سینٹ کے حالیہ الیکشن میں بھی سنی گئی ۔سینٹ کے الیکشن میں برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل تھی لیکن ووٹوں کی خرید و فروخت کیوجہ سے اسے سینٹ چیئرمین کے الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اب جبکہ ملک میں عام الیکشن ہو رہے ہیں ان میں بھی ننانوے فیصد بڑے جاگیردار، صنعتکار اور سرمایہ دار ہی الیکشن لڑ رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں،سینٹ اور اقتدار کے ایوانوں میں سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ملک کے عوام کا حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوتا عام آدمی کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہے اسے الیکشن لڑنے اور اسمبلی میں جانے کا کوئی اختیار یا حق حاصل نہیں پاکستان میں الیکشن صرف امیر آدمی ہی لڑ سکتا ہے۔ہماری جمہوریت میں خرابیوں کا یہ تحفہ جنرل ضیاء مرحوم کا دیا ہوا ہے جس کا خمیازہ ہم چالیس سالوں سے بھگت رہے ہیں اور شائدابھی مزید اور کتنا عرصہ تک یہ عذاب پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑے گا۔دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمارے پاکستان کو سلامتی کیساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزلیں عطا فرمائے۔ملک ہمیشہ کے لیے مارشل لاء سے محفوظ رہے اور پاکستان میں جلدازجلد حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہو جس میں پاکستان کے عوام کو ان کے تمام حقوق حاصل ہوں۔