ترکی (جیوڈیسک) صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کا کہنا ہے کہ 15 جولائی کی بغاوت کی کوشش کے پیچھے دہشت گرد تنظیم فیتو کے کار فرما ہونے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ باقی نہیں بچا۔
قالن نے مرمرا یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے زیر ِ اہتمام پروفیسر ڈاکٹر راشد کوچک کانفرس ہال میں منعقدہ “15 جولائی کی بغاوت کی کوشش:سول سوسائٹیز مشاورت” کے عنوان سے سمپوزیم میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ 15 جولائی کی شب کے واقعات کو یاد رکھنے کے لیے ہمارا یکجا ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ ”
ابراہیم قالن کا کہنا تھا کہ اس بغاوت کے اداکا ر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ “ترک عوام کیوں گلی کوچوں میں نکل آئی”؟ ان کے یہ دعوے ہیں کہ “ہماری عوام اتنی بہادر نہیں ہے”، “یہ ایف۔ 16 کے خلاف کیا کر سکنے کو نہیں جانتے”، “فوجیوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھنے پر ہماری عوام دُم دبا کر بھاگ جائے گی”۔
بغاوت کو دبانے والوں کے نہتا ہونے کا ذکر کرنے والے جناب قالن نے بتایا کہ “شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں آزادی اورڈیموکریسی کی خاطر ترکی کی طرح کے رد عمل کا مظاہرہ دیکھنا ممکن ہو۔ جس سے ترک سول سوسائیٹیز کے کس قدر طاقتور ہونے کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں نے وطن و پرچم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے تاریخ رقم کی ہے۔ ”
اس شب کے ایک تاریک رات ہونے کی وضاحت کرنے والے ابراہیم قالن نے بتایا کہ”فیتو نے بغاوت کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو افشا کیا ہے۔ ابتک اس حوالے سے گرفتار شدہ افراد کے بیانات سے بغاوت کے پیچھے اسی تنظیم کا ہاتھ ہونے کا واضح طور پر مظاہرہ کیا ہے۔جس سے تمام تر شک و شبہات دور ہو گئے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ 15 جولائی سے قبل فیتو نے ترکی میں ایک ڈکٹیٹر موجود ہونے اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کرتے ہوئے اس سے نجات پانے کی سوچ کو شہریوں میں عام کرنے کی کوشش کی تھی۔
اسی طرح کی صورتحال مصر میں محمد مرسی کے خلاف کیے جانے کی بھی وضاحت کرنے والے قالن نے کہا کہ “انہوں نے اسی لائحہ عمل پر کام کیا۔ انہوں نے اس شب عوامی بغاوت ہونے کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ ہمیں اس شب کے واقعات پر دلی افسوس ہے، کاش ایسا نہ ہوتا تا ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ چیز غداروں کے افشا ہونے کا سبب بھی بنی ہے۔
اب ترکی کے 15 جولائی سے قبل سے کہیں زیادہ طاقتور مملکت ہونے پر زور دینے والے ابراہیم قالن نے بتایا کہ “ہماری معیشت اور وطن اب زیادہ مضبوط ہے۔ اگر ایسا واقع کسی دوسرے ملک میں پیش آتا تو اس ملک کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا۔ ترکی اقتصادی میدان میں عظیم سطح کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم عالمی سطح کے اجلاس اور کانفرسوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ ہماری داخلی وخارجی کامیاب پالیسیوں نے ملک کو عالمی میدان میں نمایاں مقام دلایا ہے۔ ان تمام عوامل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترکی کے اب مزید مضبوط اور طاقتور ہونے کا کہنا بے جا نہیں ہے۔ ”
انہوں نے آخر میں اس چیز کی ضرورت پر زور دیا کہ 15 جولائی کی طرح کے واقعات کے دوبارہ رونما نہ ہونے کے لیے شہدا کو ہمیشہ یاد رکھنے اور ان کی بہادرانہ کہانیوں کو نئی نسلوں تک پہنچایا جائے۔