تحریر : میر افسر امان محترم قارائین جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریب ناتمام” پر بات شروع کرنے سے پہلے اس تاریخی بیان کو پاکستان کے عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیںجو بھارت کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی نے ٹھیک اُس وقت جب تحریکِ پاکستان قائد کی زیرِ کمان زوروں پر تھی تو فرمایا تھا” مجھے پاکستان بننے پر ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ بلکہ مجھے خوف تو اُس دن سے ہے جب پاکستان بن جائے گا اور مسلمانوں کے سمندر میں مل جائے گا” یہ مسلمانوں کا سمندر کیا ہے؟آپ دنیا کے نقشے پر نظر ماریں تو پاکستان کے مشرق میں مسلمان حکومتیں، انڈونیشیا ، ملیشیا ،برونئی اور بنگال، مغرب میں عرب ممالک، شمال میں وسط ایشیاء کے ممالک اور جنوب میں براعظم افریقہ،یہ ہے مسلمانوں کا سمندر۔ بنیے نے پاکستان بننے سے بہت پہلے سرحدی گاندھی کے خاندان کو اپنا ہم نوا بنا چکا تھا ۔سرحدی گاندھی کو افغانستان اور صوبہ سرحد کے پشتونوں پر مشتمل پشتونستان ریاست بنانے کا سبز باغ دکھایا تھا۔ اس خاندان کے لوگ ہندوئوںکی ودھیا اسکیم کے تحت مندروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔ ڈاکٹر خان کی سکھوں سے رشتہ داری تھی۔ اسی لیے توکانگریسی خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی کہتے تھے۔ اُدھر افغانستان والے پختونستان کی لالچ میں ان کو بابائےِ پختونستان کہتے تھے۔
کانگریسی ہونے اور گاندھی جی کے نظریاتی شاگرد کی بدولت گاندھی جی نے افغانستان کو پاکستان کا مخالف بنانے کے لیے سرحدھی گاندھی، عبدالغفارخان کو لگایا تھا۔ بنیا اس خاندان پرپہلے ہی سے سرمایا کاری کرتا رہا تھا۔ صوبہ سرحد میں ولی خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت بنانے میں اس خاندان کی مدد بھی کی تھی۔ اس سرمایا کاری کا فائدہ بھارت پہلے بھی اُٹھاتا رہا ہے اور اب بھی اُٹھا رہا ہے۔ جمعہ خان کی کتاب فریب ِ ناتمام اسی بہرام خان کے خاندان کے ا رد گرد گھومتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے المیے کی ابتدا نیشنل عوامی پارٹی،خصوصاً ولی خان کا١٩٧٣ء میں بھٹو کیخلاف جنگ شروع کرنے سے پیدا کردا ہے۔ پاک افغان تنازہ میں بھٹو کا فسطائی ذہن بھی شامل ہے۔ جنگ ہارنے کے بعدآخرمیں ولی خان عدم تشدد کا راگ الاپنے لگتے ہیں ۔ تقسیم ہند وپاک سے کچھ عرصہ پہلے ولی خان کے بڑے بھائی غنی خان کی سرکردگی میں” پختون زلمے”نامی تنظیم قائم ہوئی تھی۔ ١٩٧٠ء میں اس کامرکزی دفتر یونیورسٹی روڈ پر بنایا گیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت سرحدی گاندھی کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ قوم پرست سرداردائود نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ ١٩٧٣ء میں الٹ دیا۔ سردار دائودپختونستان کے حامی تھے۔
ریڈیو کابل سے پاکستان کے خلاف اور آزاد پختونستان اور گرایٹربلوچستان کے نام پروپگنڈا ہو تارہا تھا۔اجمل خٹک کابل میں موجود تھے۔ دائود حکومتی اہلکاروں کی اجمل خٹک سے مسلسل ملاقاتوں سے لگتا تھا کی اجمل خٹک دائود حکومت کے حصے دار ہیں۔سردار دائود نیپ کی عملی مدد کر رہا تھا۔ اسی دوران جمعہ خان صوفی سردار دائود کا پیغام لے کر پاکستان میں ولی خان کے گھر، ولی باغ آیا اور پیغام پہنچایا کہ دائود خان نے پختون زلمے کے نوجوانوں کو افغانستان میں ٹریننگ دینے کی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ولی خان نے مجھے کہا کہ واپس افغانستان جائو اور دائود کو بتائو کہ پاکستان ایئر فورس کے کچھ پختون پائلٹ اپنے جیٹ طیارے اغوا کر کے افغانستان اتر جائیں گے تو وہ انہیں کہیں پاکستان واپس نہ کردے۔١٩٧٤ء مارچ میں پختون اور بلوچ ٹریننگ لینے کابل آنا شروع ہوئے۔ ان کو جلا ل آباد، کابل اور دیگان کیمپ میں ٹریننگ دی جاتی تھی۔و لی خان آنکھ کے علاج کے بہانے لندن جانے سے پہلے کابل آئے اور تمام تخریبی اور تربیتی پرگرامات کا خود معائنہ کیا اور آخری شکل بھی دی۔ پاکستان سے آئے نوجوانوں کی ٹریننگ لینے کے بعد پاسنگ آوٹ پریڈ میں ولی خان نے حصہ لیا۔ ولی خان قصر صدارت میں رہائش پذیر تھے۔ ولی خان نے سردار دائود کو بتایا کہ پختون اور بلوچ نیپ کے ساتھ ہیں اورپاکستان کے خلاف بھر پور جنگ کے لیے تیارہیں۔
Pakistan Army
پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں بھارت سے شکست کے بعد کمزور ہ گئی ہے۔ ولی خان نے پاکستان کے مخالف ملکوں، بھارت، عراق اور سویت یونین کے سفراء سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ٹریننگ لینے کے بعد تربیت یافتہ جوان پاکستان گئے اور تخریبی کاروائیاں شروع کی۔ شیر پائو کو قتل کیا گیا۔ لاہور واپڈا ہائوس پر بم مارا گیا جس مین درجنوں بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے بعد فوج سے جھڑپیں شروع ہو گئیں فوج نے بھرپور کاروائی شروع کی۔ بھٹو حکومت نے نیب پر پابندی لگادی۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔نیپ کے لیڈر جیل میں ڈال دیے گئے۔ان پر حیدر آباد ٹریبیونل میں غداری کامقدمہ بنایا گیا۔اس سے قبل ایک پمفلٹ ”قومی جمہوری انقلاب” کے عنوان سے اردو میں اجمل خٹک نے بھارت کے تعاون سے ایک کتابچہ شائع کیا تھا۔ اس کا جمعہ خان صوفی نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور مختصر دیباچہ بنام ”گولی کا جواب گولی” لکھا اور اس کے ساتھ پختون زلمے کی کاروائیوں کی لسٹ بھی لگا دی جس میں حیات محمد شیر پائو کا قتل بھی شامل تھا۔ یہ پمپلٹ حکومت کے ہاتھ لگا اور اسی کو عدالت میں بھی پیش کیا تھا۔
بعد میں اجمل خان نے شیر پائو والے حصے کو قینچی سے کٹوا دیا اور مشہور کر دیا کہ بھٹو نے خود شیر پائو کو قتل کرایا ہے۔ اجمل خٹک بھارتی سفیر کے گھر جاکر ساری تفصیل بتاتے رہتے تھے۔ جمعہ خان صوفی لکھتے ہیں نیپ پرپابندی لگنے اور غداری مقدمہ کے بعد ولی خان کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور فوج سے معاملات طے کرنا شروع کیے۔ جنرل ضیاء نے بھٹو دشمنی کی وجہ سے نیب کے رہنمائوں کو جیل سے رہا کر دیا۔غداری کا مقدمہ ختم کر دیا اسی دوران بیگم نسیم ولی نے اپنے کوڈ نام ”زڑہ ور خان” کے نام سے سردار دائود کو خط لکھا۔ یہ خط سردار دائود کو پہنچایا گیا جس میں تحریر تھا کہ”ہم نے اپنا تیس سالہ پرانا راستہ ترک کر دیا ہے کیونکہ اب کوئی چارا نہیں۔وردی والوںکے ساتھ میرارابطہ ہے۔پنڈی مذاکرات میںجلال آبادکے طوطیوں(پختون زلمے) اور حیدر آباد کے شیروں( حیدر آبادجیل میں بند نیب کے رہنما) کے ذکر تک نہ ہوا۔ تین چار دن بعد نئی خوش خبری( بھٹو کا تختہ الٹنے کی) سے باخبر ہو جائو گے”یہ خط سردار دائود کے سینے پر ایک اور وار تھا۔ سردار دائود کو اپنے سارے اقدامات بیہودہ نظرآنے لگے۔ باچا خان، ولی خان اوربیگم نسیم ولی خان ضیاء الحق کے حکومت پر قبضے کے بعد اس سے ملتے رہتے تھے۔
پاکستان حکومت کے معافی کے عام اعلان کے ساتھ ہی پختون اور بلوچ جنگجو واپس پاکستان جانے لگے ۔ واپسی پر اسلحہ ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ اس پر کمانڈروں میں اختلاف پید ہو ئے۔ جمعہ خان اس بات پر لکھتے ہیں کہ میری نظرمیں پختون کی تمام تاریخ گھوم گئی ۔ جنگ کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں فتح حاصل کرتے ہیں۔ لیکن مال غنیمت بٹورنے کے معاملہ میں فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتے ہے۔ جمعہ خان نے صحیح کہا ہے کہ یہ فریب ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ گو کہ جمعہ خان صوفی پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں شریک رہا ہے اور پورا سچ بہت دیر بعد تحریر کیا مگر پھر بھی پاکستان کی تاریخ میں جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریبِِ ناتمام” ایک تاریخی دستا ویز کی حثیت رکھتی ہے۔صاحبو! دکھ اس بات کا ہے کہ اس وقت بھی اسی گروپ کے لوگ پاکستان پر افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگاتے ہیں جبکہ کہ انہوں نے بھارت کی شہہ پر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے کی خودسازشیںکرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے ان کی ساری پاکستان مخالف کاروائیوں کے باوجود ان کو معاف کر دیا۔ اے کاش! کہ پاکستان توڑنے کی ناکام کوشش کے بعد یہ لوگ پاکستان میں رہتے ہوئے پٹھان اور بلوچ قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کریں اسی میں ان کا اور ان کی قوموں کا فائدہ ہے۔ ایٹمی پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔