تحریر : میر افسر امان ہم نے گزشتہ کالم میں جمعہ خان صاحب کی ”کتاب فریب ناتمام” کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ قائد اعظم نے سرحدی گاندھی عبدالغفار خان صاحب کی قومیت اور پاکستان سے علیحدگی پر مبنی سوچ کو اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختون خواہ میں ریفرینڈم میں جمہوری طریقہ سے شکست دی تھی۔ اور کہا تھا کہ اب پاکستان بن گیا ہے لہذا اس کی ترقی اور سالمیت کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے عبدالغفار خان کے خاندان نے اپنی پرانی روش سے رجوع نہیں کیا۔ اس خاندان نے بھارت کی ایما پر پاکستان کو توڑنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کے بجائے اس نے اپنے ماسٹر مائنڈ بھارت ،جس نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا اوربنگلہ دیش میں اس برملا اعلان بھی کیا اور اب اس کے وزیر داخلہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دس ٹکڑے کریں گے۔ بلوچستان میں پکڑے گئے بھارت کے نیوی کے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کے مطابق بھارت بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کر رہا ہے۔ اس کی تصدیق بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم اپنے ملک کے یوم آزادی کے موقع پر کہتے ہوئے کرتے ہیں کہ مجھے پاکستانی کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان سے مدد کے لیے فون کالز آ رہی ہیں۔
اب ان حالات میں ایک محب وطن شخص کے لیے اب اس کے سوا کوئی بھی چارہ نہیںکہ پاکستان کے عوام کو اس پاکستان مخالف خاندان کے پاکستان خلاف عزائم سے آگاہ کرے۔ اس سلسلے میں خبریں اخبارلاہور میں بھی اس کے ایڈیٹرضیاء شاید صاحب نے خبریں اخبار کے صفحہ تین پر روزانہ کی بنیاد پر نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈروں کے پاکستان مخالف اور دوقومی نظریہ کے خلاف سرگرمیوں کو ٣١ اکتوبر ٢١٠٦ء تک ٤٩ قسطوں میں پاکستانی عوام کے سامنے رکھے ہیں۔ پاکستانی عوام کو ہم ان صفحات کا بھی مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ہم تو اس وقت جمعہ خان صاحب کی کتاب میں درج پاکستان مخالف سرگرمیوںسے عوام کو مطلع کررہے ہیںجو انہوں نے خود بیان کی ہیں۔وہ لکھتے ہیں١٩٤٧ء میںپاکستان بنتے وقت افغانستان کی طرف سے غفار خان کی مددافغانستان کے لیے مضر ثابت ہوئی تھی۔ جب پاکستان دولخت ہوا تو ولی خان کے ارادے نوٹ کریں کہ وہ افغانستان کے دائود خان کو پاکستان کے خلاف کس طرح اُکساتے ہیں ۔ جمعہ خان لکھتے ہیں ولی خان سردار دائود کو یقین دلاتے رہے کہ افواج پاکستان ہندوستان سے شکست کی وجہ سے پست ہمت ہیں۔ان کا مورال کمزور ہے اور یہ پشتونوں اوربلوچوں کی مشترکہ قوت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ اس بنیاد پرپشتونستان بنانے کے لیے پختون زلمے کی صوبہ سرحد میں تنظیم سازی کی گئی۔ ١٩٧٠ء میں پشاور میں مرکزی دفتر یونیورسٹی ٹائون میں حاصل کیا گیا تھا۔
٦ مئی شاہی باغ پشاور میں اس کا جلسہ ہوا اور ولی خان کو اس کا سالار اعلیٰ بنا دیا گیا۔جہاں ولی خان کو باوردی سلامی دی گئی۔ پورے صوبے میں ضلعی کمانڈرز بنائے گئے۔ افضل خان لالہ پشاور ضلع کے کمانڈرتھے۔پختون زلمے نے تخریبی کاروائیاں شروع کر دیں۔ افضل خان لالہ گرفتارکر لیے گئے۔ امیر اللہ مردان میں چھائونی میں بم سمیت گرفتار ہوئے۔ا جمل خٹک صاحب اورافراسیاب خٹک صاحب علمیت پسندی کا شکار ہوئے۔جولڑنے والوں کے بجائے لڑانے والوں میں شامل تھے۔ لکھتے ہیں،میں جمعہ خان اور اجمل خان ایک ہی راستے کے مسافر تھے۔ایک پائوںعبدالولی خان کی کشتی میں تھا اور دوسرا پائوں کمیونسٹ پارٹی کی نائو میں۔ جب مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان پر تشدد کروائیاں جاری رکھے ہوا تھا تو ولی خان یحییٰ خان کے زمانے میں کچھ اس طرح کی فضاء بنانے کی کوشش کی تھی۔ یحییٰ خان نے نیپ پر پابندی لگا دی تھی۔اجمل خٹک افغانستان چلا گیا تھا۔
NAB
جب حکومت بھٹو کے حوالے کی گئی تو نیپ سے پابندی ہٹا دی گئی تو اجمل خٹک خاموشی سے پاکستان واپس ا گئے۔ پہلے ولی خان کے بڑے بھائی غنی خان کی سرکردگی میں زلمے پختون تنظیم قائم ہوئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد آزادی کی جنگ لڑنا تھا۔ نیپ والے پاکستان سے افغانستان آنے جانے کا راستہ نادر خان کے ذریعہ استعمال کرتے تھے جن کا قبیلہ باڈر کے قریب رہتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ان ہی دنوں ،جمعہ خان ، یعنی میں نے ایک خط جو کہ اجمل خان کے نام تھا،جس میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے کچھ اہم کاغذات ودستایزات تھے۔ نادر خان کے ایک رشتہ دار کے حوالے کیں کہ انہیں افغانستان اجمل خٹک تک پہنچائے ۔جس میں پاکستان کے اس وقت کے حالات اجمل خان خٹک کے نام ہدایات درج تھیں۔وہ طور خم کے باڈر پر پکڑا گیا۔ پھرمیں بھی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان چلا گیا۔١٩٧٣ء میں ولی خان افغانستان آئے اور تمام تخریبی اورتربیتی پروگرامات کا خود معائنہ کیااور انہیں آخری شکل دی۔١٩٧٤ء مارچ میں پشتون اور بلوچ جوان ٹرنینگ لینے آنے لگے۔یہاں ان کونظریاتی ،اسلحہ استعمال کرنے ،دھماکے کرنے اور گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت دی گئی۔
تربیت یافتہ جوان اپنی ٹریننگ کے اختتام پر مختلف راستوں سے پاکستان واپس ہوئے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ اسلحہ، گولہ بارود،ٹائم بم ،ہینڈ گرنیڈ اور دیگر مواد پاکستان لے گئے۔ اورپاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں شرو ع کر دیں۔ ایک کے بعد ایک گروپ کے بعد دوسرا گروپ افغانستان میں ٹریننگ لینے آتے رہے۔پاکستان میں کہیں بنک میں دھماکہ ہوتا، کہیں جی ٹی ایس کی بس میں، کبھی پولیس تھانوں میں اورکبھی کسی ٹانگے میں بم پھٹتا۔ کوئی ریل کی پٹری کو اُڑا دیتا تو کوئی بجلی اور ٹیلی فون کی تنصیبات کو نشانہ بناتا۔ گویا صوبہ بھر میںجگہ جگہ بم دھماکے اور تخریبی کاروائیاں ہوتی رہیں۔بے گناہ نشانہ بنتے رہے۔ ان کاروائیوں نے حکومت کو کافی پریشان کیا تو حکومت نے راست قدم اُٹھایا ، گرفتاریاں ہوئیں۔بلوچستان میں بھی فوج کے خلاف جگہ جگہ تخریبی کاروائیاں شروع ہوئیں۔ فوج کا کافی نقصان ہوا۔ پاکستانی نے فوج نے تنگ آ کر آپریشن کا فیصلہ کیا۔ ایران سے ملنے واے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مری قبائل، چما لنگ، جھڈری۔ماند اور دیگرمقامات پر بلوچ گوریلوں پر بمباری کی۔ راستوں پربھی فوج نے قبضہ کر لیا۔ کچھ بلوچ پہاڑوں پر چڑھ گئے کچھ افغانستان ہجرت کر گئے۔آخر میں ان کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ اور خراب ہو گئے۔ سعودی عرب اور اسلامی ممالک کی تنظیم کے سیکرٹیری نے کوشش کی اور ہم سے افغانستان میں کئی ملاقاتیں کیں مگر حالت درست نہ ہوئے۔بھٹو نے ولی خان کے پاس اس کے بڑے بھائی،غنی خان کو خاصی نقدی بمعہ شراب کی پیٹیاں دی تھیں۔پھر بھی ولی خان نہیں مانے۔ صاحبو! اوپر درج تحریر پڑھ کر آپ آزاد رائے سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ آج جوولی خان صاحب کے صاحبزادے اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی صاحبان کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میںمداخلت کرتاہے جو اسے بند کرنی چاہیے۔ کیا یہ جو کہانی جمعہ خان نے اپنی کتاب میں لکھی جس کا کچھ حصہ ہم نے آپ تک پہنچایا ہے اس کے مطابق نیشنل عوامی پارٹی نے اپنے کارکنوں کو افغانستان دہشت گردی کی ٹریننگ لینے کے لیے بھیجتی رہی ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانستان، مسلم پڑوسی کو اُکسایا جاتا رہا گیا ہے یا پاکستان نے مداخلت کی۔ باقی اگلے کالم میں انشاء اللہ۔