تحریر: فاروق اعظم اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت انحطاط کی طرف بڑھنا شروع ہوئی تو ہندوستان میں انگریزوں نے اپنے قدم جمانا شروع کیے۔ انیسویں صدی کے نصف تک ”ایسٹ انڈیا کمپنی” اس قدر مضبوط ہوئی کہ مغلوں کے آخری فرماں روا بہادر شاہ ظفر کی حکومت صرف دہلی کے لال قلعے کی چار دیواری تک محدود تھی۔ ہندوستان کی معاشرت، معیشت، سیاست، تہذیب و تمدن الغرض ہر چیز پر انگریز قابض تھے۔ یہی وہ مرحلہ ہے، جہاں پر پہنچ کر قوموں میں ”آزادی” کی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔
برصغیر میں جنگ آزادی 1857ء کے اسباب بھی یہی تھے۔ اگرچہ اس جنگ کی ابتداء سپاہیوں نے کی تھی، لیکن اس تحریک کے پیچھے صرف میرٹھ چائونی کے سپاہی نہیں تھے بلکہ ہر وہ شخص اس تحریک کو تقویت دینے کا باعث بنا جو انگریز سامراج کے ظلم کا شکار تھا۔ ظاہری طور پر اس تحریک کو دبا دیا گیا اور آئندہ نوے برس تک تاریخ میں اسے بغاوت اور غدر کے الفاظ سے موسوم کیا گیا، لیکن آزادی کی شمع کو بجھایا نہیں جا سکا۔کیونکہ یہ انسان کے جذبات اور احساسات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ فطرتی جذبہ ہے، جس نے آگے چل کر تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ علامہ محمد اقبال اس حقیقت کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
جب ہندوستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو واضح حصوں میں تقسیم ہوا تو قانون آزادی ہند 1947ء کی رو سے ہندوستان کی مقامی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جغرافیائی حیثیت اور عوامی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں۔ تقسیم کے وقت ہندوستان 582 ریاستوں پر مشتمل تھا، جن میں سے صرف 14 ریاستیں پاکستان سے متصل تھیں۔ اس بنا پر ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ ہندوستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔
Pakistan
سرحدوں کی حد بندی کے دوران ایک طرف برطانوی ماہر قانون سر ریڈ کلف نے انتہائی جانب داری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بد دیانتی کا مظاہرہ کیا، تو دوسری طرف بھارت نے بھی ریاستوں کے الحاق میں نت نئے مسائل کو جنم دیا۔ جنوبی ہند کی دو بڑی ریاستوں ٹراونکور اور حیدر آباد دکن نے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن بھارت نے قانون آزادی ہند 1947ء کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ ظلم پر ظلم یہ ہوا کہ جوناگڑھ، مناوادر، منگرول اور کشمیر کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، لیکن بھارت سرکار ان فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوئی۔
ریاست جوناگڑھ چار ہزار میل پر مشتمل ہے۔ یہ سمندر کے راستے کراچی سے صرف دو سو میل کی دوری پر ہے۔ تقسیم ہند کے وقت یہاں نواب مہابت خانجی کی حکومت تھی۔ انہوں نے 15 ستمبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے، لیکن بھارت نے اس الحاق پر شدید واویلا کیا۔ جب نواب مہابت خانجی کراچی آئے تو بھارت نے 9 نومبر 1947ء کو جوناگڑھ میں فوجیں داخل کردیں اور بزور قوت جوناگڑھ کو اپنی عملداری میں داخل کرلیا۔ جوناگڑھ پر بھارتی تسلط اور ناجائز قبضے کے آج 67 برس پورے ہو گئے، لیکن کراچی میں مقیم جوناگڑھی عوام بھارتی جبر و تسلط کو بھول نہ سکے۔ نواب مہابت خانجی کے پوتے نواب جہانگیر خانجی اب بھی جوناگڑھ کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس 15 ستمبر کو یوم الحاق جوناگڑھ کی مناسبت سے کراچی کے جوناگڑھ لان میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اقتدار کا خواہش مند نہیں لیکن جوناگڑھ پر بھارت کی طرف سے کیے گئے ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو خوشحال ملک دیکھنا چاہتا ہوں جس میں ریاست جوناگڑھ کا مدغم ہونا باعث اعزاز ہوگا۔
یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ ہماری اکثریت تنازع کشمیر اور سقوط ڈھاکہ سے تو واقف ہے، لیکن سقوط جوناگڑھ سے واقفیت رکھنے والے بہت کم ملیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری حکومتوں نے جوناگڑھ کے مسئلے کو صحیح معنوں میں عالمی طور پر اجاگر نہیں کیا۔ فروری 1971ء میں پاکستان نے جوناگڑھ کے مسئلے کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد سے اب تک خاموشی کی فضا برقرار ہے۔
آج آزادی کشمیر کی تحریک جو اس قدر عروج پر ہے کہ بھارت کو ایک لمحہ بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، اس کے پیچھے حریت رہنمائوں کی کوششیں اور مجاہدین کی کاوشیں کارفرما ہیں۔ ”تحریک آزادی کشمیر” قربانیوں، جرأتوں، شہادتوں کی ایک لمبی داستان ہے، جو راہ حق کے شہداء کے خون سے عبارت ہے، جسے کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست جوناگڑھ کی آزادی کے لیے اسی طرح جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مسلم مقبوضہ خطوں کی آزادی کے لیے اگر جدوجہد کو ”جہاد” کا نام دیا جائے تو شاید دنیا کی نظر میں ”جرم” کہلائے۔ لیکن ہم اسے اہل دنیا کے الفاظ میں ”Freedom Fight” یا ”حریت پسندی” تو کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا عالمی منشور بھی ہر شخص کو اپنی جان، عزت، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق دیتا ہے۔
اقوام متحدہ مشرقی تیمور کے حریت پسندوں کا مطالبہ پورا کر سکتی ہے اور تین سال قبل جنوبی سوڈان میں آزادی چاہنے والے بھی آزاد ہو سکتے ہیں، تو مسلم مقبوضہ خطوں کی آزادی میں کیا چیز مانع ہے؟ اب یہ مدعی پر لازم ہے کہ وہ اپنا کیس مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرے اور آزادی کو سینے سے لگائے۔ کیونکہ آزادی کی بھیک مانگی نہیں جاتی بلکہ آزادی چھینی جاتی ہے۔