تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب سالِ رواں 2016 کے آخری مہینے دسمبر کی 7 تاریخ بروزبدھ کو ساری دنیا سمیت پاکستان میں بھی (PCAA)ُٓ کی 34ویں سالگرہ پر اِس کی کارکردگی کے حوالے سے اخبارات میں صدرممنون حُسین، محمد نواز شریف وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ، سیکرٹیری ایوی ایشن اسکواڈرن لیڈر(ریٹائر)محمدعرفان الٰہی ، ڈائریکٹرجنرل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ایئر مارشل عاصم سلیمان ہلال امیتاز (ملٹری )ستارہ امتیاز (ملٹری) سارہ بسالت ، امتیازی سند(ریٹائرڈ) اور ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل پاکستان سول ایوی ایشن ایئر مارشل اُسید الرحمن عثمانی ستارہ (ملٹری)، تمغہ امتیاز (ملٹری ) کے سیراب نما دلکش اور دلنشین اسپیشل پیغامات کے ساتھ خصوصی ایڈیشنز شائع کرکے بین الاقوامی شہری ہوابازی (PCAA)ُٓپاکستان سِول ایوی ایشن اتھارٹی کا دن بنایاجارہاتھا ابھی بدقسمتی سے اِس دن کا سورج بھی غروب نہ ہونے پایاتھا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے )کاسہ پہر3:50پر چترال سے اسلام آبادآنے والا اے ٹی آر42 مسافرطیارہ فلائٹ نمبر پی کے 661حویلیاں کے قریب گرکرتباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں ممتاز نعت خواں اور مبلغ دین جنیدجمشید اہلیا نیہا جنیدڈی سی اُو چترال اسامہ وڑائج اور 31مردمسافر،9خواتین2بچے عملے کے 6ارکان اور2چینی ایک برطانوی باشندہ اور شاہی خاندان کا شہزادہ فرحت اور بیٹی سمیت 48قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئیں یوں سال 2016 جہاں شاہ تراب الحق قادری ، امجد صابری ،فاطمہ ثریا بجیا ، عبدالستار ایدھی ،جاوید خانانی، حنیف محمد ، خرم ذکی اور شہلائلا(قندیل بلوچی بیچاری جیسی بھی تھی مگرتھی تو مسلمان اور سوشل میڈیا پراپنی پہنچان آپ تھی بہرحال اُس ) سمیت بہت سی معروف شخصیات کو تو پہلے ہی نگل چکاتھامگر اَب یہ جاتے جاتے بھی اپنے ساتھ ہمار ے خوش الحان نعت خواں جنید جمشید کو بھی اپنے ساتھ لے جاکرپوری پاکستانی قوم کو غمزدہ کرگیاہے،ابھی جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں جہاز کے حادثے میں جان بحق ہونے والے افراد کی لاشیں محرومین کے وارثین کے حوالے کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے آج یقینااِس سانحہ سے ساری پاکستانی قوم افسردہ اور غم سے نڈھال ہے اورجو اِس حادثے میں جان بحق ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔
آہ..!! پی آئی اے کے اے ٹی آر 42مسافر طیارہ پی کے 661کے42مسافروں (جن میں مردو خواتین اور بچے بھی شامل تھے) اورجہاز کے 6عملہ سمیت کسی کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ بدھ کی روشن دوپہر 3:50پر چترال کے رن وے کی زمین کو چھوڑنے اورفضاءکو چیرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے طیارے کے اِن مسافروں کا یہ آخری سفرثابت ہوگا ۔بیشک ، موت کا ذائقہ ہر ذی شعور کو چکھنا ہے اور یہ بھی بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ جب زندگی ہے تو موت بھی ہے اِس کے بغیر ہماراایمان مکمل نہیں ہوتا ہے ،اِس سے انکارنہیں ہے کہ ہماری تو 69سالہ مُلکی تاریخ المناک حوادث سے بھری پڑی ہے۔
آج بھی اگر ہم اپنی تاریخ میں جھانکتے ہیں توماضی میں پیش آئے بے شمار المناک اور ہولناک حادثات کو یاد کرکے جسم کانپ اُٹھتاہے اَب ہم اِسے اپنی کوتاہی کہیں یا قسمت کا لکھاسمجھ کر صبر کرلیں مگر یہ کہہ کر ہم منہ نہیں چراسکتے ہیںآج ہمیں یہ حقیقت ضرورتسلیم کرنی پڑے گی کہ پچھلے 69سالوں میں ہمارے یہاں جتنے بھی حوادث پیش آئے ہیں اِن کی بڑی وجہ ہمارے اداروں کے غیر ذمہ دارا افرادرہے ہیں اورہر حادثہ اداروں کے کرتادھرتاو ¿ں کی نااہلی اوراِن کی کوتاہی کا ہی نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔
آج بھی چترل سے اسلام آباد کے لئے پرواز بھرنے والے پی آئی اے کے اے ٹی آر 42مسافر طیارہ پی کے 661کوجو حاثہ پیش آیا ہے ابتدائی طور پر سیکرٹری ایوی ایشن کی جانب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پی آئی اے کا یہ طیارہ حادثے کی صبح اسلام آباد سے مسافروں کو لے کر چترال گیاتھا ریکارڈ کے مطابق تب بھی جہاز کا ایک انجن خراب ہونے کی اطلاع تھی جبکہ بدقسمت طیارے کو کیپٹن صالح جنجوعہ اُڑارہے تھے معاون احمد جنجوعہ اورفرسٹ آفیسر علی اکرم تھے جبکہ فضائی میزبانوں میں عاصمہ عادل اور صدف فاروق تھیں 4:40پرپائلٹ نے ” مے ڈے “ کال دی کہ انجن میں فنی خرابی پیداہوئی ہے اِن جملوں کے ساتھ ہی پائلٹ کا کنٹرول روم سے آخری رابطہ ہوا اورطیارہ حادثے کا شکار ہو گیا یوں مُلکی تاریخ میں 1965سے شروع ہونے والے فضائی حادثات میں ایک اور حادثے کا اضافہ ہو گیا۔
Junaid Jamshed
بدقسمتی سے حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں عالمی شہر ت یافتہ خوش الحان نعت خواں و مبلغ دین جنید جمشید شہید اپنی اہلیہ نیہا جنیدشہید کے ہمراہ سیٹ نمبر 27Cپر سوارتھے یہی وہ جنیدجمشید ہیں جنہوں دنیا میں دل دل پاکستان جیسے شہر آفاق ملی نغمے سے شہرت کی آسمان کی بلندیو ں سے بھی آگے شہرت اور عظمت اور وقار کے ساتھ اپنی پہنچان آپ بنائی تھی مگر جب اِنہوں نے موسیقی کو خیرباد کیا اور تبلیغ دین کے لئے خود کو وقف کیا تو پھر اِنہوں نے اللہ کی راہ میں تبلیغ دین کے لئے نکل کر یہ بھی ثابت کردیاکہ ” ج “ سے جنت ہے تو ” ج “ سے جنید جمشیدبھی ہے، بیشک جنیدجمشیداللہ کی سونپی گئی ڈیوٹی اور فرائض کی ادائیگی کے لئے تبلیغی دورے سے چترال سے اسلام آباد واپس آرہے تھے کہ طیارے کو حادثہ پیش آگیااور اللہ کے کام کی تدوین و ترویج کے لئے نکلنے والے شہید جنید جمشیداپنی اہلیہ نیہا جنید کے ہمراہ دنیا سے کوچ ہوکر جنت کے راستے پر روانہ ہوگئے ہیں۔
بیشک جنید جمشید اللہ کا ایک ایسا سپاہی تھا جس نے اپنی ذات کو اپنے قول و فعل سے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے دن رات وقف کررکھاتھا اِس سے بھی انکارنہیںکہ جنید جمشید شہید کا خلاءصدیوں پُر نہ ہو سکے گا اللہ جنید جمشید شہید سمیت جہاز میں سوار تمام مومن مسلمانوں مرد و خواتین کی مغفرت کرے اور حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے تمام مسلمان مسافروں کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطافرمائے (آمین یارب العالمین) اوراِسی کے ساتھ ہی لگے ہاتھوںہم اللہ سے اُس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے صدقے یہ بھی دُعا کرتے ہیں کہ ” اے ..!! ہمارے رب، اللہ رب العزت اَب تو ہمارے مُلک کے حکمرانوں سیاستدانوں اور PCAAجیسے قومی اداروں اور اس جیسے دیگر وفاقی اور صوبائی سرکاری اداروں کے اُونچے اُونچے عہدوں پر فائز کرتادھرتاو ¿ں کا بھی کڑااحتساب اور پکڑکرنے میں دیر مت کی جیوجو قومی خزانے سے بھاری بھاری لاکھوں میں تنخواہیں اور مراعات تو بے شمار لیتے ہیں مگر پھر بھی یہ لومڑی سے بھی زیادہ عیاراور چالاک لوگ اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتنے ہیں تو ایسے المناک حادثات رونماہوتے ہیں جیسا کہ گزشتہ روز ایک حادثہ پی آئی اے کے جہاز پی کے 661 کو پیش آیا اور اِس سے پہلے انگنت حوادث پیش آئے۔
اللہ رب کائنات…!! اَب تو ہمارے یہاں پیش آئے اگلے پچھلے تمام حادثات کے ذمہ داروں کو اِن کی گردنوں سے پکڑاور اِن کے منہ ایسی مضبوطی سے دبوچ لے اور پکڑ لے کہ اِن کی اداروں میں تعمیرو ترقی کے مدمیں ٹینڈراور جاب ورکس کو اپناجیب ورکس بناکرکمیشن کھاکر( ٹھیکیداروں اور کنٹریکٹروں سے ناقص مال میڑل لے کر جہازوں او رٹرینوں میں لگانے سے قومی اداروں کا بیڑاغرق کرنے والی) لمبی لمبی زبانیں باہر کو آجائیں کیونکہ اِن کی اِس عادت کی وجہ سے ہی ہمارے PCAAجیسے بہت سے قومی ادارے کسمپرسی اور زبوحالی کے شکار ہورہے ہیں جن کی وجہ سے اِن کی ترقی اور کارکردگی بری طرح سے متاثر ہورہی ہے یقیناآج یہی وجہ ہے کہ اَب تک میرے دیس پاکستان میں کبھی جہاز تو کبھی ٹرین اور کبھی کسی تو کبھی کسی قومی ادارے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حادثات ہوتے آئے ہیں اَب تک ہونے والے اِن المناک حادثات کے نتیجے میں پاکستانی قوم اپنے قومی ہیروزاور کروڑوں شہری اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں سزاوارکو سزانہیںملتی ہے کیونکہ ہمارے یہاں ہر حادثے کے بعد حقائق کو چھپانے کے لئے ایک کمیشن بنادیاجاتاہے جس کا کام بس انکوائری کو اتناطول دینا ہے کہ اگلے کسی حادثے تک خودبخود پراناحادثہ ماضی کا حصہ بن جاتا ہے ابھی ایسے ہی لگتا ہے کہ سانحہ پی کے 661کی تحقیقات کے لئے بھی کوئی کمیشن بنادیاجائے گا اور پھر اِس کمیشن کا م بھی رفتہ رفتہ یہیں تک محدود ہوگاکہ حقائق کو گول مول کرکے چھپایا جائے گا اور اگر زیادہ کچھ ہواتوپھر ساراملبہ جہاز کے مرنے والے پائلٹ پر ڈال دیاجائے گااور اُسے ہی جہاز کے حادثے کا موردِ الزام ٹھیرایا جائے گا اِس طرح بہت آسانی سے بنایا جانے والا کمیشن ادارے کے زندہ افسران اور اِن کی نااہلی پرپردہ ڈال دے گااورادارے کے نااہل اور لاپرواہ حاضرسروس زندہ لوگوں کو بچالیاجائے گا اورآخر میں مرنے والے کے لئے بس فاتحہ خوانی کرکے فائل بند کردی جائے گی، ایسے کمیشن کی تو دہت تیری کی۔ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com