تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر ایک ایسی دلدوز خبر جو کڑکتی ہوئی آسمانی بجلی کی طرح میرے ذہن کو جھلسا گئی کہ چترال سے فضاء میں اڑان بھرنے والا طیارہ ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس میں شامل تمام لوگ مقام شہادت پر فائز ہو گئے جب حادثے میں خالق حقیقی کے پاس پرواز کرنے والے شہداء کی لسٹ سامنے آئی تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی جیسے صلب ہو کر رہ گئیں۔
جب جنید جمشید کا نام آیا تو جیسے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر دنیا سے آخرت کا سفر ایک اٹل حقیقت ہے سو یقین کرنا پڑا۔ پھر ایسا ہوا کے نظر کے سامنے جیسے ماضی ایک فلم کی طرح چلنے لگا جو ابھی کل کی بات محسوس ہو رہی تھی جب ٹیلی ویژن پہ ایک خوبصورت نوجوان ہاتھوں میں گٹار تھامے بڑے دل موہ لینے والے انداز میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر وطن کی محبت سے سرشار ایک گیت گا رہا تھا ،اور اپنی دھرتی کی قصیدہ خوانی کچھ یو کر رہا تھا کہ ایسی زمیں اور آسماں ان کے سوا جانا کہاں چلتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کاررواں دل دل پاکستان جان جان پاکستان جی ہاں جو دل کے اندر سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ میری دھرتی جیسی زمین اور اس پہ سایہ فگن آسمان دنیا میں اور کہیں نہیں دل دل پاکستان جان جان پاکستان کہنے والا نوجوان وائیٹل سائینز گروپ بینڈ کا گروپ لیڈر جو محض گلوکار نہ تھا بلکہ ایک تعلیم یافتہ انجینئر تھا۔
عام زندگی میں ایک کم گو اور مہذب نوجوان جس کا سفر وطن کی محبت سے شروع ہوا پھر ٢٠٠٤ ء میں اس کی ملاقات ممتاز مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل صاحب سے ہوئی جس ملاقات نے اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور پھر وہی جنید جمشید گلوکاری کو ترک کر کے دین الہی کی طرف ایسا راغب ہوا کہ خود کو اشاعت و تبلیغ دین کے لئے وقف کر دیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ وہی زبان جس پہ کبھی گیت رہتے تھے۔
PIA Plane Crash
اپنی پر اثر تاثیر سے لبریز آواز سے ثناء خوانیء نبی ۖ میں محو ہوگئی رب العزت نے تبلیغ دین کے صدقے میں ایسے مقام پر پہنچا دیا جس کی ہر مسلمان حسرت کرتا ہے ثنا خوانی ء رسول ۖ کی برکت اور دین کی خدمت نے اسے ایک مذہبی سکالر بنا دیا ۔ جنید جمشید ایک ایسی شخصیت جسے مالک کائنات نے عزت دولت شہرت اور دینی معرفت سے فیضیاب کر رکھا تھا مگر سب کچھ ہونے کے باوجود اس شخصیت میں غرور و تکبر نام کو بھی نہیں تھا عام زندگی میں ایک صلح جو اور امن پسند طبیعت کے مالک جنید جمشید کا وہ واقعہ بھی نظروں کے سامنے گھوم گیا جب اسلام آباد ایر پورٹ پہ چند شر پسندوں نے اس پر حملہ کر دیا ان پر مقدمہ درج کروانے کا استحقاق رکھتے ہوئے بھی کوئی کارروائی نہ کی اور نا ہی کوئی بدلہ لینے کی کوشش کی بلکہ حضور ۖ کی سیرت طیبہ کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کو معاف کر دیا اور یہی کہتے رہے کہ اللہ پاک ان کو ہدائت دے۔
چترال بھی وہ تبلیغ دین کی ہی خاطر گئے تھے جہاں سے واپسی پر یہ دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے اور وہ بھی ایک شہید کے روپ میں ۔قارئین کرام میں جب جنید جمشید کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو دنیا میں قیام سے لیکر سفر آخرت تک مالک ارض و سماء نے اسے ہر پل ایسا نصیب کیا کہ جس پر رشک آتا ہے۔
وطن کی محبت سے سرشار ۔دین کی دولت سے مالا مال ، ثناء خوانیء رسول سے معطر زبان اور آخر میں شہادت کا رتبہ یہ ساری چیزیں اس وقت نصیبوں میں لکھی جاتی ہیں جب ذات باری تعالی آپ سے راضی ہو اور سب سے بڑی بات کہ شہادت بھی اس ماہ ء مقدس میں نصیب ہوئی جس میں نزول وجہء تخلیق کائنات ہوا جس ماہء مقدس میں نبی ۖ کی ولادت باسعادت ہوئی اسی مہنے میں خدائے بزرگ و برتر نے جنید جمشید کو رتبہء شہادت سے نواز کر اخروی سفر نصیب کیا اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ جنید جمشید شہید کے درجات بلند فرمائے۔ ( آمین )
M.H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com