اکیس دسمبر کی شب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہمارے نظام شمسی کے دو بڑے سیاروں مشتری اور زحل کے ’انوکھے ملاپ‘ کا مشاہدہ کیا گیا۔ قبل ازیں ایسا مشاہدہ 12ویں صدی میں کیا گیا تھا اور اب 800 سال بعد کیا جا سکے گا۔
اگرچہ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں گزشتہ دو روز سے مطلع ابر آلود تھا مگر حیرت انگیز طور پر سوموار کی شام غروبِ آفتاب کے بعد کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت کئی دیگر علاقوں میں مشتری اور زحل کے انوکھے ملاپ کو سادہ آنکھ اور دور بین کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا۔
واضح رہے کہ وزارت سائنس یا سپارکو کی جانب سے اس تاریخی واقعے کے لیے کسی ایونٹ کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنسز اور ملک بھر سے فلکیات کی ترویج کے لیے کوشاں سوسائٹیز نے عوام کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے طور پر ایونٹس کا انعقاد کیا تھا، جن میں کراچی ایسٹرونامرز سوسائٹی، پاک ایسٹرونامر اسلام آباد اور لاہو ر ایسٹرانامیکل سوسائٹی شامل ہیں۔
کراچی ایسٹرونامرز سوسائٹی نے اپنی پرائیویٹ آبزرویٹری ” کاز ڈوم” میں ایونٹ کا انعقاد کیا، جس میں 50 سے زائد افراد نے شرکت کی۔کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ شسپیس سائنسز کے طالبعلم فوض صدیقی کے مطابق وہ کئی ماہ سے اس انوکھے اور تاریخی منظر کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔
پاکستان میں فلکیاتی ترویج کے لیے نوے کی دہائی سے کوشاں سینئر ماہر فلکیات اور پاک ایسٹرونامر اسلام آباد کے بانی و صدر ڈاکٹر فرخ شہزاد کا کہنا تھا، ”یہ میری زندگی کا انوکھا ترین تجربہ تھا اور میں چاہتا تھا کہ بس اسے دیکھتا رہوں اور وقت تھم جائے۔ اگرچہ اسلام آباد میں موسم کئی روز سے ابر آلود تھا مگر قدرت نے ہماری مدد کی اور ہم نے یوٹیوب سے اس تاریخی منظر کی لائیو کوریج بھی کی۔‘‘
کراچی ایسٹرونامرز سوسائٹی کے صدر مہدی حسن نے بتایا کہ فلکیات کی اصطلاح میں کن جنکشن یا ملاپ ہمارے نظام شمسی کے کسی دو سیاروں کے قریب آنے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔
مشتری اور زحل کو گیس جائنٹس یا دیو ہیکل گیسی سیارے کہا جاتا ہے، جو ہر 20 برس بعد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور اس کا مشاہدہ سن 2000 میں کیا گیا تھا۔ مگر 21 دسمبر 2020 کو رونما ہونے والا ان دونوں سیاروں کا ملاپ بہت سے حوالوں سے مختلف تھا۔ اس رات یہ دونوں سیارے ایک دوسرے کے اس حد تک قریب تھے کہ سادہ آنکھ سے دیکھنے پر یہ ڈبل پلینٹ یا دوہرے سیارے کی طرح نظر آرہے تھے۔ مشتری اور زحل ایک دوسرے سے 456 ملین میل کے فاصلے پر ہیں مگر کل رات یہ معمول سے لمبے ایک ستارے کی طرح دکھائی دیتے تھے کیونکہ ان کے درمیان1 .0 درجے کا فرق تھا اور کل رات یہ معمول سے زیادہ روشن بھی تھے۔
امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد ماہرِ فلکیات اور ہیمشائر کالج میں فلکیات کے پروفیسر ڈاکٹر سلمان حمید کے مطابق مشتری اور زحل کو زمین کے محافظ سیارے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ نظام شمسی کے کنارے سے زمین کی جانب آنے والے شہابیوں یا ایسٹی رائڈز کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ”تاریخی حوالہ جات کے مطابق اس سے پہلے سن 1623 میں گلیلیو گلیلی کے دور میں یہ دونوں سیارے ایک دوسرے کے اتنے قریب آئے تھے کہ زمین سے دیکھنے پر ایک ستارے کی طرح نظر آئے تھے مگر اس وقت یہ سورج کے اتنے قریب تھےکہ روشنی کی زیادتی کے باعث با آسانی انہیں دیکھنا ممکن نہیں تھا، جس طرح کل رات اس کن جنکشن کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ تقریبا 800 سال پہلے چار مارچ 1226 میں فجر کے وقت دیکھا گیا تھا اور اب 800 سال بعد ہی دوبارہ دیکھا جا سکے گا۔‘‘
بہت سے ماہرینِ فلکیات، جیوتشی اور مذہبی علماء یہ یقین رکھتے ہیں کہ مشتری اور زحل کا یہ ملاپ زمانۂ قدیم کے ستارۂ بیت اللحم کی واپسی ہے۔ اس قیاس کے مطابق یہ عظیم ملاپ ایک معجزاتی ستارہ بناتا ہے، جس کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے اور اسی ستارے کو دیکھ کر قدیم دور کے دانا افراد و جیوتش حضرت یوسف، حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کے طرف متوجہ ہوئے تھے۔ مگر یہ محض قیاسات ہی ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مستند تحقیق یا تاریخی حوالہ دستیاب ہے۔