تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری مجھے سے کہا گیا کہ دین حقیقی قابل قبول وہ ہے جو قرآن کریم اور سنت رسول سے لیا گیا ہے، نہ وہ کہ یہ فلاں نے اس طرح کہا ہے یا فلاں نے اس طرح کہا ہے کیونکہ وہ دین کے مخذ اور دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ ” میں تمہارے لئے ایسی دو چیزیں چھوڑ کے جاتا ہوں جب تک آپ نے ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا گمراہ نہیں ہونگے ، وہ ا للہ کی کتاب اور میری سنت ہے ” پھر میں نے ان سے کہا:یہ اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی یہ فقہا پر بہت بڑا ظلم ہوگا بلکہ تمہاری طرف سے بڑی دشمنی ہوگی کہ فقہا اسلام اپنے وقتوں میں قرآنی اور نبوی نصوص کے مطالب کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور حالات و واقعات اور وقت کے داپیچ سے واقفیت کے مطابق اچھے فتوی دیا کرتے تھے مگر ان کی حیثیت صرف حدیث نبوی کے شراح کی ہے، تو یہ ان کی شان میں ناانصافی متصور ہوگی۔اس امر میں تردد نہیں کہ وہ کتاب و سنت کی تفہیم صحیح و عمیق کے بعد معاملہ کیا کرتے تھے البتہ ان کے ہاں کچھ مختلف فیہ امور بھی ہیں جن کو بنیاد بناکر انہیں متشدد و دقیانوسی افکار سمجھا جاتاہے اور پھر اآج یہ خیال کیا جاتاہے کہ کیا ضرورت ہے کہ ان فقہا کی آرا کو سالہاسال بعد دوبارہ ٹٹولا جائے یا پرکھا جائے کہ ان پر بحث و تمحیص کا بازار گرم ہو۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے برادران اسلام دینی علوم پر وسیع و عمیق نظر نہ رکھنے کی وجہ سے کتاب و سنت سے انحراف سمجھتے ہیں جبکہ فقہا ملت تو سنت مطہرہ پر عامل تھے۔
مثال کے طور پر اللہ تعالی کا قول ہے : ” جو شخص استطاعت رکھتا ہوحج کرنے کی تو وہ زاد سفر تیار کرے” جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے اللہ کے رسول سے دریافت فرمایا کہ : مستطیع ( طاقت رکھنے والا ) کون ہے ؟ تو فرمایا : جس کے پاس راستے کا خرچہ اور سواری ہو۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ لوگوں نے فقہا سے دریافت فرمایا کہ : زاد ِراہ کا مقدار کیا ہے ؟ اور سواری کونسی ہے ؟ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : زاد ِراہ سے مراد یہ کہ آپ کے پاس اتنا مال ہو کہ جو آپ کے سفری ضرورریات او ر اہل خانہ کیلئے اتنا مال چھوڑناکہ آپ کے واپسی تک ان کی ضروریات کیلئے کافی ہو اور ان کو کسی سے مانگنے کی حاجت پیش نہ آئے ۔اور سواری جانے اور واپس آنے کیلئے موزون ہو۔ اور امام شافعی نے فرمایا: زاد ِراہ سے مراد یہ ہے کہ : آپ کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج اور اس کے لوازمات کے لئے کافی ہو ۔ اور یہ کہ آپ کے پاس رہنے کے لئے گھر ہو ۔ یا یہ کہ آپ کے پاس رہنے کے علاوہ گھر ہو جس کی قیمت سے آپ کے سفر حج کی ضروریات پوری ہو سکیں تو اس کو بیچ کر حج کرنا واجب ہے ۔
امام مالک کی نظر میں حج لوگوں پر اللہ تعالی کا قرض ہے ، اور قرض کا ادا کرنا ہر ایک پر لازم ہے اور اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حقدار ہے کے اس کاقرض ادا کیا جائے ۔ اسی وجہ سے امام مالک کی رائیہے کہ جب بھی ایک مسلمان کے پاس اتنا مال دستیاب ہو کہ حج پر جانے کی طاقت رکھتا ہو تو اسیضرور جانا چاہئے اور یہ ضرووری نہیں ہے کہ واپس آنے کا خرچہ بھی رکھتاہو کیونکہ اللہ تعالی کا قرض ادا کرنا زیادہ اہم ہے۔
ان ائمہ کرام نے نصوص میں احکام تلاش کرنے میں اپنی عقلوں کی رعایت نہ رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ احناف نے لوگوں کے احوال و ظروف کو مدنظر رکھا اور شافعیہ نے زیادہ احتیاط کو ملحوظ رکھا اور کسی نے لوگوں کے فائدے کو پسند کیا ، جس کی ان کے اجتھادات سے تائید ہوتی ہے ۔ پھر جس نے لوگوں سے حرج کو دور کرنا چاہا اس نے اللہ تعالی کے اس قول پر عمل کیا “اور نہیں بنایا گیا تمہارے لئے حرج و پریشانی و مشکل دین میں “تمام فقہا نے اس شرعی اصول کے مطابق فتوی دیا۔ اور جس نے اپنی فتوی کی بنیاد تیسیر ( آسانی ) پر رکھی اس نے اللہ تعالی کے اس قول کے مطابق عمل کیا ” بیشک تنگی کے بعدآسانی ہے ” اور اسی طرح باقی احکام کو سمجھ لیں ۔اختلاف کا ہونا لازمی چیز ہے اور ممکن ہے کہ اللہ تعالی ایسی قوم کو لائے جو اپنی مختلف عقلی صلاحیتوں کی وجہ سے اختلاف کریں جس سے معاشرے کیلئے مفیدو آسان آ رائیں سامنے آئیں۔
اور اسی طرح رضاعت ( دودھ پینے ) کے بارے میں فتوی کی مثال ہے کہ جب اللہ تعالی نے رضاعت کے سبب نکاح کی حرمت کا حکم نازل فرمایا تو سنت نے رضاعت کی تحدید فرمائی جس سے نکاح کی حرمت ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا : ” رضاعت حرام کردیتی ہے جس کو نسب حرام کردیتاہے” اور اس کی بنیاد پر فقہا نے رضاعت کی تعداد پر غور فرمایا ، پھر ان میں سے کسی نے پانچ کا عدد مقرر فرمایا اور کسی نے تین کا اورکسی نے ایک کا اور ہر ایک نے احادیث رسول سے دلیل پیش کی۔
اور یہ ممکن ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑا ہو اور ان کے بچے بھی ہو چکے ہوں ۔ اور کوئی آکر انہیں کہے کہ آپ کی گھر والی بچپن میں آپ کی ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ شریک ہیے تو کیا ہم طلاق کا فتوی دے دیں؟ یقینا نہیں ، امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کرنا چاہئے کہ انہوں نے پانچ رضاعت سے حرمت ثابت ہونے کی فتوی دیا ہے ۔ اوراس بنیاد پر ان کے نکاح کوجائز رکھا جائے گا ۔ لیکن اگر نکاح سے پہلے شیرخواری کے مرحلے میں ثابت نہ ہوتو شک زائل ہوجائے گا اور فتوی یقین پر قائم ہوگا۔ اور تیسیر فہم دین میں سے ہے ، اورمسلمانوں کیلئے آسانی تلاش کرنا دین میں سے ہے کہ فرمایا گیا ہے “دین میں کوئی حرج نہیں”۔