اے (اللہ کے) نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم آپ فرما دیجئے کہ ہم پر کوئی حادثہ اور مصیبت نہیں آتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے مقدر بنایا ہے ، وہ اللہ ہمارا مالک ہے اور چاہیئے کہ تمام مسلمان اس پر بھروسہ کریں اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کریں۔ (سورۂ توبہ: آیت 51)
ایک اور جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اعتدال کی راہ اختیار کرو اور سید ھے سید ھے رہو اور یہ بات جان لو کہ تم میں سے کوئی شخص صرف اپنے عمل سے نجات نہیں پائے گا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، ہاں میں بھی نہیں ، مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنے فضل اور رحمت میں ڈھانپ لے۔
کہہ دیجئے (اے نبی میرے بندوں کو میری طرف سے) اے میرے بندو!جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہیں ،تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے گا(صرف تمہارے توبہ کرنے کی دیر ہے) ،بے شک خدا بڑا (گناہ) بخشنے والا مہربان ہے۔ (الزمر:53) ویسے بھی بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔دنیا میں غربت زدہ لوگ ہی خدا کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔اس کا اعتراف علامہ اقبال کی شاعری سے بھی بخوبی ہوتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود میں آنے سے قبل ہی دنیا کا ایک ضابطۂ زندگی مرتب کیا۔ لوگوں کی ہئیت کیا ہوگی ، انسان کا خد و خال کیا ہوگا ، ان کی عمر کی نوعیت کیا ہوگی۔ اس کو رزق کس کس طرح سے اور کہاں کہاں سے ملے گا۔جد و جہد سے یا بغیر جد و جہد کے ملے گا۔حوصلہ مندی ہوگی یا پست حوصلہ ہوگا۔ فکر مندی کی اہلیت کم ہوگی یا زیادہ یا صفر،یہ اللہ تعالیٰ نے تمام باتیں لوحِ محفوظ پر لکھ رکھی ہیں۔
انسان کو راحت ، آرائش و زیبائش اور فراوانی پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے و تنگ دستی کی حالت میں مزید شکر گزاری۔اہلِ دولت کی یہ فطرت ہے کہ وہ غرور و تکبرمیں جلد مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ وہ آرائش کے جال میں قید ہو جاتے ہیں۔ اس کو اپنے ہمسایہ حتیٰ کہ اپنے ماں و باپ اور بہن بھائیوں سے بھی رغبت نہیں رہتی ہے،جن کا ان پر حق اللہ تعالیٰ نے رکھاہے کہ ان کی دل آزاری نہ کی جائے۔ان کو کسی مقام پرنیچا نہ دکھایاجائے۔
مگر غربت زدہ لوگوں کی حق و صداقت کی بات بھی اہلِ دولت کو گراں گزرتی ہے۔ ہراہلِ دولت کی خواہش یہ رہتی ہے، بلکہ انسان کی فطرت میں یہ پیوست ہے کہ میرا حقیقی و قریبی بھی میرے طابع رہے، مجھ سے آگے نہ بڑھ جائے ، حالانکہ انسان میں یہ مادہ بھی خدا وندہ کا ہی عطا کردہ ہوتاہے مگر ہر کمال پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے۔ وہ جب چاہے کسی کو بھی کسی بھی وقت بلند کر دے اور جب چاہے پست کر دے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نشیب و فراز کی کنجی اپنے پاس رکھی ہے۔
Muslim Man
اس لئے انسان کو اپنے قوتِ بازو پر نہیں ،بلکہ ہر حال میں قدرتِ الٰہی پربھروسہ رکھنا چاہیئے۔ انسان میں بہترین طاقتِ گویائی اور بہترین عبادت گزاری ہونی چاہیئے،مگر حقائق سے گریز کیوں کیا جاتا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے دعائے قنوت کا تحفہ عشاء کی نماز و تر میں پڑھنے کے لئے دیاہے۔ہماری عبادت گزاری میں للّٰہیت ہونی چاہیئے۔ جس کا مکمل مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں ۔تجھ سے مغفرت و معافی طلب کرتے ہیں،ہم تجھ پر ایمان رکھتے ہیں،تجھ پر مکمل بھروسہ ہے۔تیری بہترین تعریف کرتے ہیں۔
تیرا شکر ادا کرتے ہیں،تیری ناشکری نہیں کرتے،ہم ان لوگوں کو الگ کر دیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں جو لوگ تیری نافرمانی کرتے ہیں۔ اے اللہ!ہم تیری عبادت کرتے ہیں،تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں،تجھ کو سجدہ کرتے ہیں،تیری طرف دوڑتے ہیں،تیری رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں،بے شک تیرا عذاب نافرمان لوگوں کو بہت جلد ملنے والاہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم ایک جوان کے پاس تشریف لے گئے جس پرحالتِ نزع طاری تھی،آپ نے اس سے پوچھاکیا اُمید رکھتے ہو؟اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم!خدا کی قسم،میں اللہ سے اُمید رکھتاہوں کہ وہ میرے گناہ معاف کر دے گا اور مجھے جنت میں داخل کرے گا۔آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے فرمایا” جس قلب میں امید اور خوف دونوں جمع ہوں وہ ضرور نجات پائے گا۔ (ترمذی شریف)
ایک اور جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رعایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کی ایک دعا یہ تھی:” مفہوم:ائے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاسے جو سنی نہ جا سکے اور اس دل سے جو خشوع اختیار نہ کرے اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔ عام طورپر انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے فضائل بتایاجاتاہے لیکن ذکرِ الٰہی نہ کرنے کے جو نقصانات ہوتے ہیں ان پربہت کم ہی بات کی جاتی ہے۔
ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اللہ کا ذکرکرنا صرف نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہے، لیکن یہ ذکرِ الٰہی کا نا مکمل تصور ہے۔اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔اللہ کا ذکر نہ کرنا گناہوں کی طرف راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان کا پیش خیمہ ہے۔نیک اعمال کی طرف راغب ہونے اور نیک اعمال پر قائم رہنے کے لئے ہرپل اللہ کا کثرت سے ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔
Quran Pak
قرآن شریف اور نماز اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہیں،جو انسان بے نمازی ہو، قرآن سننے یا پڑھنے سے دور رہتا ہو، ممکن ہے کہ اس کے دل اور زبان پر اللہ کا ذکر جاری رہتا ہو مگر جو انسان نماز اور قرآن سے دور ے، اس کا دل ، دماغ اور زبا ن شیطان کی گرفت میں ہے۔ نماز اور قرآن سے دور رہنے والا عملی طور پر اللہ کے ذکر سے منہ موڑتاہے۔ آج کا دور فتنوں کا دور ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو قیامت کی جن نشانیوں سے آگاہ فرمایا،ان میں سے اکثر علامات آج منظرِ عام پر آچکی ہیں۔
قرآن کے مطالعے سے تمام تلخ باتیں عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے جن گناہوں کی پاداش میں پہلی اقوام کو آسمانی اور زمینی آفات سے تباہ کر دیا،وہی گناہ کلمہ پڑھنے والوں میں عام ہو چکے ہیں۔گناہوں پر نادم ہونے کے بجائے فخرکیاجاتاہے۔گناہگار قابلِ رشک ہیں اور متقین پر زندگی تنگ ہے۔گمراہوں کو اللہ کی رحمت خوب یاد ہے لیکن وہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہیں۔لہٰذا جو لوگ اللہ کے غضب، عذاب اور طاقت کا علم نہیں رکھتے۔
ان کے دل اللہ کے خوف سے خالی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ دن بہ دن گناہوں میں ترقی کرکے اللہ کے عذاب کے مستحق بنتے جا رہے ہیں۔اب ہم سب پر لازم ہے کہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے خود کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کے عذاب سے بچائیں۔ اللہ تعالیٰ سے روزانہ ہم کلامی کے باوجود ہم کس سمت جا رہے ہیں، اس پر غور و فکر کی ضرورت کل بھی تھی اور آج اس سے کہیں زیادہ ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ: اُس مصلحت پرست کو جینے کا حق نہیں جس کو زباں ملے اور بے زباں رہے تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی