تحریر : رائو عمران سلیمان کسی بھی حکومت کا یہ بنیادی فرض ہوتاہے کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگی کی حفاظت کرے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے لوگوں کا قتل عام کرنا شروع کردے ، مطلب یہ کہ قانون کی حکمرانی اوربددیانتی پر مبنی نظام کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔لیکن جس ملک میں مقامی حکام اپنے سے نیچے کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے ہو وہ حکام بالا غریب اور نادار لوگوں پر تشدد کرنے سے کس طرح سے ہچکچا سکتے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹائون کی کہانی بھی ایسے ہی سفاک حکمرانوں کی روداد کہی جائے تو درست ہوگا، سانحہ ماڈل ٹائون کے واقعے میں اگر رکاوٹیں ہی ہٹانا مقصود تھا تو پھر نہتے لوگوں پر رات کے اندھیرے میں مسلحہ پولیس کے دھاوے کی کیا ضرورت تھی۔؟ جون 2014میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون میں پیش آنے والے واقعے میںپاکستان عوامی تحریک کے 14کارکنان جابحق ہوگئے تھے جبکہ نوے کے قریب زخمی بھی ہوئے ،جس پر جسٹس باقرنجفی کی سربراہی میںجوڈشیل کمیشن نے انکوائری کی تھی تاہم ابھی تک اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیاپنجاب کے چیف منسٹر نے غالباً جسٹس باقر نجفی کمیشن کو اس لیے مقرر کیا تھا کہ وہ اس المناک سانحے پر مٹی ڈال سکیں،لیکن اس رپورٹ میں کچھ ایسے حقائق کو بیان کیا گیا ہے جس سے شہباز شریف سمیت ان کے نہایت ہی بااعتماد ساتھی اور قریبی حلقوں کے لیے قانونی خطرات بڑھ جاتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے پنجاب حکومت اس رپورٹ کو پبلک کرنے کے حق میں نظر نہیں آتی ،اور اس سلسلے میں ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود اس رپورٹ کو شائع کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔مگر اس کے باوجود جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے کچھ مندرجات سامنے آچکے ہیں جس میں وزیراعلی ٰ پنجاب کی پریس کانفرنس اورحلف نامے میں تضاد سمیت پنجاب حکومت کی متعدد غلطیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے پنجاب حکومت کے بہت سے لوگوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔جبکہ ایک ایسے شخص کی ویڈیو تک موجود ہے جو توڑ پھوڑ کررہاہے اور پولیس اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پر پنجاب کے وزیرقانون کا چٹکلا نہ ڈالنا اس تحریر کے ساتھ مذاق ہوگا جس میں موصوف کا کہنا ہے کہ ہم جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو اس لیے منظر عام پر نہیں لارہے ہیں کہ اس کو پبلک کرنے سے ملک میں افراتفری یا پھر فرقہ واریت پھیلنے کاخدشہ ہے ؟ کیا خوب فرمایاہے وزیرقانون پنجاب نے یعنی سانحہ ماڈل ٹائون میں ہونے والی چودہ شہادتیں ان کی حکومت یا پولیس کی غنڈہ گردی سے نہیں ہوئی بلکہ یہ دو فریقین کے ٹکرائو سے ہوئی ۔ مطلب کہ یہ واقعہ شیعہ سنی فساد کی وجہ سے ہوا؟ ۔وزیر اعظم نواز شریف کے لیے جس طرح سے پانامہ کا معاملہ ان کا جینا حرام کرتا رہاہے بلکل اسی طرح پنجاب حکومت کی ناک پر سانحہ ماڈل ٹائون کا کیس لڑ چکاہے ، ویسے بھی اس سارے معاملے میں پنجاب حکومت کا حق ہی نہیں بنتا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی راہ میں روڑے اٹکائے یہ حق تو ان لوگوں کا بنتاہے جن کے بندے اس سانحے میں مارے گئے پھر کس سلسلے میں پنجاب حکومت اپنا ثواب دید اس معاملے پر چپکانے کی کوشش کررہی ہے ،یقینا جسٹس باقر نجفی رپورٹ کا مطالعہ شہباز شریف سمیت ان کا وزیرقانون کر چکے ہونگے جس میں یقینا ان لوگوں کے لیے نہایت ہی خطرناک معاملات دکھائی دیئے ہونگے جس کے باعث یہ لوگ اپنا پورا زور لگائے ہوئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر صورت میں جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو منظر عام پر آنا چاہیے اور یہ ہی انصاف کا تقاضابھی ہے مگر شایدشریف خاندان کے نزدیک ایسے تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
فی الحال پنجاب حکومت اس کیس کا زہر ختم کرنے کے لیے اس کیس کو لمبا کرنے کی کوشش کریگی بلکل اسی انداز میں جس طرح جس طرح نوازشریف اور ان کے بچوں کے وکیل انکے کیس کو لمبا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی عذر ڈال دیتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں کیس کو ڈانواں ڈول رکھنے کی کوشش کی جائے گی ،اگر جلدی فیصلہ آبھی گیا تو یقیناً چیف منسٹر پنجاب سمیت دیگرملزمان کو اپیل کا حق بھی حاصل ہوگا یعنی سیشن کورٹ میں کیس چلنے کے بعد ہائی کورٹ جائے گا اور پھر ایک دن یہ کیس سپریم کورٹ میں جالگے گا جہاں تک سزاکامعاملہ ہے اس میں یہ رپورٹ پر منحصر ہو گا کہ شہباز شریف پر اس سانحے کی کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے فی الحال اس سارے معاملے کو اس قدر لمبا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کیس کو مردہ گھوڑا بنادیا جا ئے یا پھر معاملے کو ٹھنڈا کردیا جائے یا پھر دبادیا جائے۔ مگر اس سارے چونچلوں میں حکمران یہ بات اپنے ذہن میں بٹھالیں کہ ان کے لوگوں کی جانب سے اداروں سے محاز آرائی کا جو سلسلہ شروع ہوچکاہے وہ اس محاز آرائی کو لیکر کسی بھی طرح سے عدالت پر اثر انداز نہیں ہوسکیں گے بلکہ ان کی اس قسم کی حرکتیں ایسے کیسز کو نہ صرف مشکوک بناتی ہیں بلکہ اپنے خلاف آنے والے کچھ نرم فیصلوں کو سخت فیصلوں میں بھی تبدیل کردیتی ہیں۔
فی الحال جسٹس باقر نجفی کی رپور ٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے پاکستان عوامی تحریک سپریم کورٹ بھی جاپہنچی ہے تاہم ابھی تک سپریم کورٹ کی جانب سے سماعت کے لیے کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔اس کیس کا اگر جائز ہ لیا جائے توعام طور پر ایسے واقعات میں عموماًموت کی سزا نہیں ہوتی ایسے حالات میں کسی شخص کے براہ راست ملوث ہونے کے ثبوت مل جائیں توپھانسی ۔ نہیں تو قید کی سزا ہوتی ہے جس کاقانون مختلف ہوتا ہے،زیادہ تر اس سانحے میں ملوث پولیس افسران کو اگر قربانی کا بکرا بنایا گیا تو پانچ سے سات سال کی سزا میں اندر ڈال دیا جائے گا۔آخر میں یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ اگر پنجاب کی حکومت سانحہ ماڈل ٹائون کے واقعہ میں ملوث نہیں ہے توجسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پبلک کرنے میں کیا حرج ہے ؟۔گزشتہ تین برسوں سے اس رپورٹ پر سانپ بن کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے ؟۔یقینا اس بات کا ایک ہی حل ہے کہ شہباز شریف جب تک پنجاب کے اقتدار پر ہیں اس رپورٹ کو منظر عام پر لانا اس قدر آسان نہ ہوگا۔