انصاف چاہئے

Dr Fauzia Siddiqui

Dr Fauzia Siddiqui

تحریر : حفیظ خٹک
ایک نہیں، سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں رضا کار آج بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد میں وقت گذرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان رضاکاروں میں صرف مرد نہیں بلکہ بہنیں، بیٹیاں اور مائیں بھی شامل ہیں۔ ہر رنگ و نسل، فرد و قوم او ر مذہب سے عاری ہوکر یہ سب رضاکار صرف ایک مقصد کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ وہ غرض و مقصد بہت واضح اور وہ ایک بہن، ایک بیٹی کی باعزت رہائی، اس کی وطن واپسی ہے۔ ایک بہن کی، ایک بیٹی کی قید سے رہائی ایک فرض بھی ہے اور ایک قرض بھی، جو یہ بات جانتے ہیں وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ ہیں۔

جو نہیں جانتے وہ یہ بات جان آج ہی جان جائیں۔ یہ بات نہ جاننے کے باعث اب تک وہ بے حس و خاموش رہے، کیوں؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں صرف ان کی ہیں جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور جلد واپسی کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں گھروں میں ہیں اور محفوظ بھی۔ اگرایسا ہے تو یہ با ت نہ بھولیں کہ جو کچھ اس قوم کی اس امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ماضی میں ہوا، ویسا اس سے بڑھ کر ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

ان کی عزتیں بھی غیروں کو بیچی جاسکتی ہیں۔ اپنی عزت کی جب تک خفاظت نہیں کریں گے اس وقت تک یہ ڈر یہ خوف ان کے دلوں میں عدم استحکام کو دوام بحشتا رہے گا۔ اک غیر یقینی کی سی کیفیت پیدا ہوگی اور بڑھتی رہے گی۔ لہذا خدارا، جاگ جائیے ، ہوش میں آجائیے اور اپنا فرض اور قرض اداکیجئے ۔ آگے بڑھیں اور اس بہن کا ساتھ دیں جو اپنی زندگی کو دائو پر لگا کر اپنی بہن کو باعزت رہائی دلوانے اور اسے واپس لانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ان کی یہ کوشش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کامیابی ان کے قدم نہیں چوم لیتی۔ وہ کامیابی صرف ان کی کامیابی نہیں ، ان تمام رضاکاروں کی کامیابی ہوگی جو برسوں سے یہ جہد مسلسل کر رہے ہیں۔

یہ مارچ ہی کا مہینہ ہے ، جس میں قوم کی بیٹی کی ولادت ہوئی اور اسی ماہ میں انہیں اعلی اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن یہ بات بھی سامنے آجاتی ہے کہ اس ماہ میں انہیں گرفتار و اغوا بھی کیا گیا۔ رواں ماہ میں ان کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والے عافیہ موومنٹ کے ذریعے ، کسی اور پلیٹ فورم سے ، کسی اور مذہبی و سیاسی تنظیم کے نام سے اپنے تئیں ، اس کی واپسی کیلئے اپنے حصے کا کام و اقدامات کریں گے۔

یہ سلسلہ تو اس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک وہ واپس نہیں آجاتیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے تقریب ، سیمینار ، تقریر، تحریر، ٹاک شو، ویڈیوپیکج ،جلسہ اور ریلیاں اس وطن عزیز کے اندر اور اس سے باہر کے ممالک میں جار ی ہیں۔ ایک لکھاری سے لے کر شاعر تک اور جلسہ گا ہ میں اک نعرے سے لے کر نعروں کی بازی تک ہر کام ، ہر عمل کے پیچھے مقصد ایک اور نہایت نیک ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے جہد کرنے کا اوراس راہ میں اپنے جذبات کے اظہار ان رضاکاروں کا منفرد اندازمیں ہے۔اظہار و عکاسی جاری ہے اور جاری رہے گی۔

Asmat Siddiqui

Asmat Siddiqui

ان سب کے پیچھے ، ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور بڑھانے کیلئے بلکہ یہ کہا جائے کہ ان سب سے آگے جو ہستی اس پور ی عظیم تحریک کو لئے آگے بڑھ رہی ہیں وہ اک ماں ہیں۔ اس قوم کی ماں ، اس امت کی ماں محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ، جو کہ عافیہ کی امریکی عدالت سے سزا سننے کے بعد سے اب تک ایک بار بھی مایوس نہیں ہوئیں۔ ان کا حوصلہ جو کہ پہاڑ کی مانند ہے ۔ انہوں نے تو ڈاکٹر عافیہ کو جب 86برسوں کی قیدی کی سزا کا سنا تو اسی روز اسی لمحے یہ کہا تھا کہ آج سے امریکہ کا Down Fall شروع ہوگیا ہے۔

امریکہ اب امریکہ نہیں رہے گا اس کے بھی روس کی طرح ٹکڑے ہوں ۔ اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ عالمی سطح پر اس امریکہ کی چوہدراہٹ اب ختم ہو کر رہے گی۔ امریکہ نے میری نہیں اس قوم کی بلکہ اس امت کی بیٹی کو انسایت سوز سزا دیکر انساینت کا انسانی حقوق کا ، اقوام متحدہ کا ، اپنے ملک کا اور عالمی سطح پر خود کو انصاف پسند کہنے کا حق کھو دیا ہے۔ امریکہ نے غلط اقدام کیا ہے اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میری عافیہ نے کوئی جرم نہیں کیا ۔ اس کے محالفین نے اپنا کام کر دیا ہے لیکن میرا یقین اللہ پر قائم اور دائم ہے اور میں اسی سے انصاف کی امید رکھتی ہیں۔

ایک ایسی ماں کی ادھیڑ عمری میں اس کی بیٹی کو 86برسو ں کی سزا سنادی جائے۔ اس کے جذبات ایسے ہوں گے ، اور اس کے بعد سے اب تک جس انداز میں اسی عافیہ کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کی وہ حوصلہ افزائی کرتی اور انہیں جدوجہد میں مایوسی سے بچاتی رہی ہیں۔ ان کی ہمت بندھاتی اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کرتی ہیں ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے بہت بڑی بات اور بہت بڑا عالم ہے۔

تحریر لکھنے کے دوران ، ان سے ملنے سے پہلے و بعد میں بس ایک ہی جذبہ دل میں اپنے قیام کو مضبوط کرتا چلا جاتا ہے اور وہ یہی ہے کہ جدوجہد کرنی ہے ، اپنے فرض اور قرض کو جاری رکھنا ہے اور اس وقت تک سب کرنا ہے جب تک مقاصد کا حصول نہیں ہوجاتا۔بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ، کو ان کی عظمت کو ان کی جرائت کو ان کی ہمت و استقامت کو اے خالق کائنات تو ہی قائم و دائم رکھنا اور انہیں بیٹی سے جلد تو ہی ملادینا ۔ ان الفاظ کے آگے دل کے ، دماغ کے، ضمیر واحساسات کی کسی اور انداز میں ترجمانی ممکن نہیں ہے۔

16برس کا وہ ایک ایسا رضاکار ہی ہے جو میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد نتائج کاانتظار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر میںرضاکارانہ انداز میں اسی کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے اور آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل تھا ۔ شہر قائد میں اپنے سگے رشتہ داروں کے ساتھ مستقل رابطہ کرھتے ہوئے وہ خدمات عافیہ موومنٹ میں سرانجام دے رہاتھا ۔دن بھر اپنے حصے کا کام کرنے اور رات اپنے ماموں کے ہاں گذارنے چلا جاتا تھا۔ اس کے والد جو اپنے علاقے میں قوم کی بیٹی کی رہائی اور جلد واپسی کیلئے اپنے تئیں جدوجہد کر رہے ہیں۔

America

America

ان کا وہ بچہ ایک روز جب کام کرتے کرتے تھک گیا تو رات وہیں پر رک جاتا ہے اور مرکزی دروازے پر موجود چوکیدار کیلئے قائم عارضی کمرے میں رات بسر کرنے کیلئے لیٹتا اور سو جاتا ہے لیکن رات کے آخری پہر میں تین نامعلوم افراد آتے ہیں جن میں سے ایک کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتے ہیں اور وہ تینوں مل کر اس نوجوان کو اٹھاتے اور اس سے ڈاکٹر عافیہ کے بچوں اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں جواب نہیں ملتے تو اس 16سالہ نوجوان پر تشدد کرتے ہاتھ پائوں باندھتے ہوئے اوربے ہوشی کی حالت میں اسے چھوڑکر وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ صبح میں جب چوکیدار آتا اور اس حالت میں اسے دیکھتا ہے تو وہ جلدی گھر کے دیگرافراد کو بتاتا ہے اور اس طرح پولیس کو بھی اطلاع مل جاتی ہے۔ پولیس تھانہ جو کہ اس گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں ، لیکن ان کی معلومات کا فاصلہ ناقابل بیاں ہے۔

بہر حال سب ٹی وی چینل اور اخبارات کے نمائندے آتے ہیں اور اپنی معلومات لیتے اور خبریں دیتے چلے جاتے ہیں۔ رینجرز بھی آتی ہے اور اپنی رپورٹ تیار کر کے چلی جاتی ہے۔ فروری کے درمیانے عشرے میں ہونے والے اس واقعے کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں۔ وہ معصوم بچہ تو اپنے آبائی گھر پہنچ گیا لیکن رپورٹ کے نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ جس پر عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دیگر سبھی پریشانی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایک دور اسی گھر پر ایسا بھی گذرا ہے کہ جب دن رات وہاں پر پولیس کے اہلکار ہوتے تھے ۔ دن میں اور رات میں ذمہ داری کے ساتھ وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے لیکن اب یہ عجب معاملہ ہے کہ صرف ایک پولیس اہلکار وہ بھی صرف دن کے اوقات میں ہی نظر آتا اور تنہا ہوکراس گھر کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، ان کی والدہ ، بچے اور ڈاکٹر عافیہ کے بچے سب بہادر ہیں وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں نہ ہی وہ حوف زدہ ہونے والے ہیں ۔ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں ۔ اس ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور یہ کام بھی وہ تمام عمر کرتے رہیں گے۔ لیکن صوبائی حکومت ، مرکزی حکومت کی ذمہ داریاں کہاں گئیں؟قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں ؟ انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ ، وزارت قانون سب کہاں ہیں؟ کون اس واقعے کی تفصیلات اور ذمہ داروں کو گرفتار کر کے ان کے انجام تک پہنچائے گا؟ انصاف کون دے گا؟ سٹی کورٹ ، سندھ ہائی کورٹ یا اسلام آباد میں سپریم کورٹ اس واقعے پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ان کی والدہ کو ، ان کی اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں کو آخر کون جواب دے گا کون انہیں انصاف فراہم کرے گا؟ وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ یا وزیر اعظم میاں نواز شریف کون اس واقعے کا ذمہ دار ہے؟ ان دونوں کا تو معاملہ یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے رابطہ تک نہیں کیا اور نہ ہی انہیں تسلی دی ، ہمت افزائی کی ، ہمت بڑھائی نہ ان کی ،ان کی والدہ کی اور نہ ہی ان کے بچوں سے ملاقات کر کے انہیں تسلی دی ۔ کیوں ، آخر کیوں ایسا رویہ اختیار کیا گیا؟انصاف کہاں گیا ؟ کون انصاف دے گا؟ کیا اس واقعے پر مظلوموں کا ساتھ دینے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کیلئے تحریک انصاف کو میدان میں آنا پڑے گایا کسی اور جماعت کو یہ کردار ادا کرنا پڑے گا؟ اس ظالمانہ اقدام پر ہماری حکومت کب اور کیا اقدام اٹھائے گی۔

وعدے کی بات کیا آگئی میاں نواز شریف کا کیا ہوا وعدہ پھر سامنے آگیا ؟ وہ وعدہ جو انہوں نے برسوں قبل گورنر ہائوس سندھ میں بیٹھ کر ڈاکٹر عافیہ کے بچوں سے ، ان کی والدہ سے کیا تھا ، پوری قوم سے کیا تھا لیکن وہ بچے ، ان کی نانی اماں اور پوری قوم آج تک اس وعدے کی تکمیل کی راہ تک رہی ہیں۔ نجانے میاں صاحب کو اپنا کیا ہوا وہ وعدہ یاد ہے بھی یا نہیں؟ یاد نہیں ہوگا ، ہوتا تو وہ چند قدم ہی سہی آگے ضرور بڑھتے اور قوم کی بیٹی کو واپس لانے کیلئے چند اقدامات دیکھاوئے کیلئے ہی سہی ضرور اٹھاتے ۔ جب انہوں نے اس وقت سے اب تک کچھ نہیں کیا تو بھلا اس معمولی سے واقعے پر وہ کیوں کر کچھ کریں گے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے پر بھی قومی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہی کچھ کریں گے۔ نوٹس لیں گے اور قوم کی بیٹی کے اہل خانہ کو حفاظت فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ ہاں سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب تو ان سے مایوسی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

Dr. Aafia Siddiqui

Dr. Aafia Siddiqui

اب اگر امید ہے تو صرف اسی جنر ل سے رہ گئی ہے وہی اس قوم کی حفاظت کرنے والا اس قوم کی بیٹی کو واپس لانے والا احسن اقدام کر سکتا ہے۔ عافیہ موومنٹ کا ہر رضاکار ، او ر عافیہ کی واپسی کیلئے مختلف ناموں سے کام کرنے دیگر تنظیمیں ان حالات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کیلئے صرف جنرل راحیل سے ہی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ جدوجہد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے جاری ہے اور جاری رہے گی ۔ ملک دشمن عناصر کے ایسے اقدامات عافیہ موومنٹ کا راستہ نہ تو روک سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی جرائت کرسکتے ہیں۔ عافیہ کی رہائی تک جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی ۔ کیوں کہ عافیہ کی رہائی کیلئے کام کرنے والے اس کام کو ایک فرض سمجھ کر اور ایک قرض سمجھ کر نبھا رہے ہیں ۔ یہ سمجھ آج قیدی بہن و بیٹی کیلئے ہے تو یہی قوم کی دیگر سب بہنوں اور بیٹیوں کیلئے بھی ہے اور رہے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی واپس آئیں گی اور ان شاء اللہ جلد آئیں گی۔

تحریر : حفیظ خٹک
(hafikht@gmail.com)