سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو ان کی جگہ چیف جسٹس تعینات کر دیا گیا ہے ، وہ18جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔میاں ثاقب نثار 31دسمبر 2016 کو سنیئر ترین جج ہونے کی وجہ سے منصف اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ملک کے 25ویں منصف اعلیٰ ہیں۔عدالت عظمیٰ کے حوالے سے ان کے کردار کے مختلف پہلوئوں پر بحث کا سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوجائے گا اور ایسا لگتا ہے کہ سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے بعد میاں ثاقب نثار کی شخصیت موضوع بحث بن سکتی ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعدبعض عناصر و حلقے اس بات کا اطمینان ضرور کریں گے کہ ان کے خلاف مقدمات میں ممکنہ حد تک ٹھہرائو آئے گا ۔ شاید یہ گمان ہو لیکن نئے چیف جسٹس ، جسٹس آصف سعید کھوسہ رول آف لا ء پریقین رکھتے ہیں ۔ازخود نوٹس مقدمات کا سلسلہ جو سابق چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری نے شروع کیا تھا ، وہ موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی جاری رکھا اور اس اختیار کے تحت بڑے اہم معاملات کا نوٹس لے کر ارباب اختیار کی نیندیں حرام کیں ۔کسی بھی غریب شخص کے لئے اعلیٰ عدلیہ تک پہنچنا ایک خواب ہی ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس حوالے سے غریب و متوسط طبقے کی آواز کو ارباب اختیار تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک پاور فل پلیٹ فارم بن کر ریاستی اداروں کو متوجہ کیا ۔ گوکہ سوشل میڈیا میں سچ سے زیادہ جھوٹ کا غلبہ ہے لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے جو اقدامات کئے اس حوالے سے مختلف حلقوں کاردعمل کا آنا فطری ہوگا ۔ بھرپور تنقید بھی کی جائے گی اور تعریفوں کے پل بھی باندھے جائیں گے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ چھوٹے بڑے اداروں میں پائی جانے والی خامیوں پر ایک سخت موقف اپنایا ۔ سیاسی جماعتوں کے بعض رہنمائوں کی جانب سے عدلیہ کے بعض فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ جس پر انہیں توہین عدالت کا سامنا ہوا ۔ معافی تلافیوں کے بعد اب بیشتر سیاسی رہنما اپنے لفظوں میں عدلیہ پر تنقید کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر یہی طرز عمل اپنے سیاسی مخالفین کے لئے بھی اختیار کرلیں تو اس سے سیاست میں صحت مندانہ تنقید و اصلاح کے رجحان کو فروغ مل سکتا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے بعض رہنمائوں کی جانب سے کرخت و اخلاقی حدود سے تجاوز لب و لہجہ احسن قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ایسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
میاں ثاقب نثار نے صحت عامہ اور پانی کے مسئلے پر اپنی زیادہ توجہ مرکوز رکھی اور سرکاری اداروں کے دوروں میں صوبائی حکومتوں کو ہسپتالوں کی بدترین حالت زار پر سخت سرزنش بھی کی۔ صاف پانی کی فراہمی سمیت ڈیموں کی تعمیر کے لئے وسیع تر مفاد میں اقدامات کئے۔ دیگر معاشرتی مسائل کے حل کے لئے بھی ان کی توجہ رہی اور سماجی برائیوں کے خلاف کئی اقدامات نے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ لیکن جس بات کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی گئی وہ ماتحت عدالتوں سمیت اعلیٰ عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں برسوں برس سے زیر التوا مقدمات کا فیصلہ نہ ہونا تھا۔ماتحت عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے جرائم میں ملوث لاکھوں ملزمان برسوں برس سے انصاف کی دوہائیاں دیتے نظر آئے۔ پاکستان بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار انتہائی قابل ترس رہی اور پیشیوں پر جانے کے لئے ان کے ساتھ جیل حکام کا رویہ اور لاک اپ پولیس کے عملے کی کارکردگی کو درست نہیں کیا جاسکا ۔ لاکھوں ملزمان اور جیلوں میں قید ہزاروں قیدی عدل و انصاف کے لئے اپنے زیر سماعت مقدمات کے جلد فیصلوں کا انتظار کرتے ہی رہ گئے۔ جوڈیشری میں انقلاب لانے کے لئے کوئی ایسا اقدام سامنے نہیں آسکا جس سے سائلین کو فوری اور سستے انصاف کی توقع ہو۔
معاشرے میں کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں ۔ یہ پاکستانی غریب و متوسط طبقے کی عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ انہیں سستے ، فوری اور شفاف انصاف کے لئے کسی بھی حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا ہو۔ بلا شبہ معروف مقدمات نے عالمی ذرائع ابلاغ کی بھی توجہ حاصل کی ۔ لیکن اس سے عام عوام کی طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ آج بھی ایک سائل و متاثر فریق تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے کے لئے منت سماجت اور رشوت دیتا ہے ، تفتیشی افسران کے خرچوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے جیبیں گرم کرتا ہے۔ کورٹ کی تاریخوں میں پیشیوں اور ضمانتوں کے لئے وکلا ء کی خدمات اپنی چادر کے مطابق حاصل کرتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس وقت بھی منصف اعلیٰ کے مسند پر فائز ہیں ۔ عدالتی اصلاحات کے لئے آپ کی خواہشات کا سب کو علم ہے ۔ غریب و مڈل کلاس طبقہ اب بھی یہ چاہتا ہے کہ لاکھوں مقدمات کی سماعت اور سستے و فوری انصاف کے لئے اپنے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے پیشرو اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے معزز جج صاحبان کی توجہ مبذول کرادیں کہ انصاف وہ ہے جو غریب کو اُس کی دہلیز پر مل جائے۔ سیاست ، حکومت اور ازخود نوٹس یہ تو سب چلتے رہیں گے لیکن کم ازکم غریب و مڈل کلاس طبقے کی حالت زار کو بدلنے اور لاکھوں ملزمان سمیت ہزاروں ایسے قیدیوں کے معاملات کو سرفہرست کرلیں جو چھوٹے چھوٹے معمولی جرائم میں کئی دہائیاں انصاف کے حصول کے لئے گرار دیتے ہیں اور انہیں فوری ، سستا اور صاف شفاف انصاف نہیں ملتا۔