اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں مؤقف اپنایا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی جائے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی جائے کیونکہ کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا نظرثانی درخواستوں کے دوران کوئی دوسری درخواست دائر نہیں ہو سکتی، نظرثانی کیس میں آرٹیکل 184/3 کی درخواست دائر نہیں کی جا سکتی، قانون میں کھلی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے، میڈیا پر نشر کرنے کا نہیں۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 سال سے میری زندگی مائیکرو اسکوپ کے نیچے ہے، اب چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں لیکن حکومت خوفزدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے میڈیا کو تباہ کر دیا، یہ پراپیگنڈسٹ اور کنٹرولڈ میڈیا چاہتے ہیں جو ان کی طرف کی بات کرے، یہ گلا پھاڑ کر میرے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں، لوگ یوٹیوب پر جا رہے ہیں، ان کو اس پر بھی اعتراض ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر نے مئی 2019 میں پریس کانفرنس کرکے میری کردار کشی کی، 2 سال گزر گئے اور اب شہزاد اکبر اتنے خوفزدہ ہیں کہ عدالت نہیں آتے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ براہ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں، کسی میڈیا ہاؤس نے عدالت میں براہ راست نشریات کی درخواست نہیں دی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں میڈیا پر پابندیاں ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کا انحصار غیر ملکی عدالتوں کے فیصلوں پر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے عدالت کو کئی معاملات میں آسانی ہوئی، ویڈیو لنک پر سماعت بھی ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ہوتی ہے، وفاقی حکومت ہمیں نا بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، براہ راست نشریات عدالت کا اختیار ہے وفاقی حکومت کا نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ عدالتی نہیں سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ ہے جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آج بھی سماعت کھلی عدالت میں ہی ہو رہی ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ عدالتی اور پارلیمانی کارروائی کی براہ راست نشریات میں فرق ہے، پارلیمان میں بحث عمومی اور عدالت میں ٹیکنیکل ہوتی ہے، عدالتی کارروائی میں استعمال ہونے والی زبان عام فہم نہیں ہوتی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں، ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا، عدالتی کارروائی میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کی عدالت ہے، گوادر میں بیٹھا شخص عدالتی کارروائی دیکھنا چاہے تو کیسے روک سکتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دے کر بیٹھے رہنے کا فائدہ نہیں، وکیل یا جج کوئی بھی بدتمیزی کرے تو عوام کو معلوم ہونا چاہیے، عدالت میں ایسی کوئی بحث نہیں ہوتی جو سننے کے قابل نا ہو، دنیا کو علم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ کئی بار سماعت ان کیمرہ بھی ہوئی ہے، برازیل نے تو کہہ دیا کہ ججز کے چیمبرز کی گفتگو بھی نشر ہو گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت میں اس وقت 10 ججز ہیں، 6 دیگر ججز موجود نہیں ہیں، باقی معزز ججز کو سنے بغیر کیسے براہ راست نشریات کا حکم دے دیں؟ 10 ججز نے حکم دیا تو دیگر تمام ججز اس کے پابند ہوں گے۔
انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے کا یہ مطلب نہیں لوگ فیصلے ہوتے دیکھیں: ایڈیشنل اٹارنی جنرل وفاق کے وکیل کا کہنا تھا شہری کا حق عدالتی کارروائی دیکھنا ہے تو انصاف گھر تک پہنچنا بھی اس کا حق ہے جب کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامی مشکلات ہر فورم پر ہوتی ہیں، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے کا یہ مطلب نہیں لوگ فیصلے ہوتے دیکھیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر آنے کا مطلب ہے فیصلہ غیرجانبدارانہ ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کھلی عدالتوں میں سماعت بھی اسی لیے ہوتی ہے کہ انصاف ہوتا نظر آئے۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کر دی۔