نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور کی سیاست گندی ہو چکی ہے انصاف اور تقوی سے عاری ہے۔ وہ مسلمان ریاستیں جو اسلام کے نام پر اپنی برتری کا دعوی کرتی ہیں ان کی بھی وفا اسلامی اخلاق سے اور اسلام کے بلند و بالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے اسی وجہ سے عالم اسلام کے طرز عمل میں تضاد دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی فرقے کسی نہ کسی اسلامی ریاست کے ساتھ دھڑے بنا چکے ہیں حالانکہ تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے اگر اسلام سے سچی محبت ہے تو محض ان تقا ضوں سے وفا کی جائے جو اسلام، قرآن اور جو سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے ہیں۔
ان تقاضوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ سیاست پر غور کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر نہ مسلمانوں کی سیاست کی بنیاد دکھائی دیتی ہے نہ غیروں کی سیاست کی۔ غیر مسلم قومیں انصاف کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کرتی ہیں کہ گویا وہی ہیں جو دنیا میں اس کو قائم رکھنے پر مامور کی گئی ہیں اور ان کے بغیر ان کی طاقت کے بغیر یہ دنیا سے مٹ جائے گا اور اسی طرح مسلمان ریاستیں اسلام کے نام پر بڑے بڑے دعا وی کر رہی ہیں۔
مگر جب انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو قرآن کریم جو مثالی نمو نہ انصا ف کا پیش کرتا ہے اس کا دونوں طرف فقدان ہے ،بہت سے سیاسی لیڈران کو نہ اپنے عوام کی فلاح عزیز ہے ناہی جان و مال کا تحفظ،بس دولت کی حرس وہوس ہے یا پھر اقتدار کا نشہ۔ جس طرح یہودی افواج امریکہ کے ساتھ مل کر اسلامی ممالک میںظلم و ستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اس سارے معاملے میں دیگر مغربی دنیا میں ایک بھی آواز سنائی نہیں دیتی اس کے برعکس اگر ان کے اپنے کسی علاقے میں اگر کوئی مسلم ملک سے تعلق رکھنے والے شخص کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو دنیا کے تمام اخبارات ،ریڈیو اور ٹیلی ویثرن میں شور پڑ جاتا ہے کہ ظلم کی حد ہو گئی ہے۔ اور پھر مسلم انتہا پسندی ،اسلامی دہشت گرد ی جیسی تکلیف دہ اصطلاحات سننے کو ملتی ہیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک کے مفادات اب مغرب سے وابستہ ہوچکے ہیں ان میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے ۔پھر ایران ،اردن اور کویت کا نام آتا ہے ،اس کے علاوہ بہت سے دیگر اسلامی ممالک بلواسطہ یا بلاواسطہ مغربی مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں،بد قسمتی سے ان ممالک کی اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اور یہ سب خود غرض حکمرانوں اور لیڈروں کی بدولت ہے۔ مغربی دنیا چونکہ ڈپلومیسی میں درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
Islamic Country
جس کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جاتا ہے۔ ان کی زبان میں سلاست ہوتی ہے اور پرو پیگنڈے کے زور سے اپنی جھوٹی باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان میں کچھ معقولیت دکھائی دینے لگتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مسلم ممالک ایک ہو کر دوسرے ملک سے بسر پیکار اسلامی ملک کو سمجھائیں اور امن کی راہ دکھائیں ۔مگر اس کے برعکس غیروں کے ساتھ مل کر ہمیشہ ایک برادر اسلامی ملک نے دوسرے اسلامی ملک پر چڑھائی کی ،اور یوں غیروں کے مفادات کا تحفظ کیا۔
اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کچھ افسوس ناک حقائق سامنے آتے ہیں۔مثلا ہلاکو خان کے ذریعے 1258 میں بغداد کو تباہ کروایا گیا۔ اس وقت بھی ایک مسلمان ملک کے اندر سے ہی بعض مسلمانوں نے سازش کر کے بغداد پر حملہ کر وایا، ہلاکو خان کو دعوت دے کر بلوایا گیا اور پھر بغداد کی اور اس اسلامی حکومت کی بے انتہاخوفناک تباہی ہوئی، اس کے بعد تیمور لنگ کے ہاتھوں 1386ء میں بڑی تباہی مچائی گئی اور اس وقت بھی مسلمانوں کے نفاق اور افتراق کا نتیجہ تھا۔
تیسری دفعہ ترکوںکے ہاتھوں 1638 ء میں بغداد کی حکومت کو برباد کیا گیا یہ بھی ایک مسلمان حکومت تھی جو ایک دوسری برادر مسلم حکومت سے برسرِپیکار تھی ۔یوں سیاسی طور پر ایک بار نہیں بلکہ کئی بار انصاف کا خون کیا گیا۔اور انتہائی بے دردی کے ساتھ اسلامی قدروں کو پامال کیا گیا۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ تسلسل سے جاری رہا۔ اس کے بعد ترکوں کو برباد کرنے کے لئے انگریزوں نے سعودی عرب کے خاندان اور سعودی عرب کے فرقے سے مدد حاصل کی جو اس وقت سعودی عرب پر قابض تھا ،کویت کو بھی ان کی مکمل معاونت حا صل تھی۔
Saudi Arabia
اگر سعودی عرب کا موجودہ خاندان جو ایک سیاسی خاندان تھا اور ان کا قبیلہ اور فرقہ وہابیہ اکھٹے ہوکر انگریز کی تائید نہ کرتے اور کویت میں بسنے والے قبائل ان کی مدد نہ کرتے تو ترکی حکومت کو عالم اسلام سے ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب پھر سعودی عرب، امریکہ اور ارد گرد کی ریاستوں کی تائید اور مدد سے شام اور مصر کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ اور ان سب کے پیچھے اسرائیل ہے جس کو ہمیشہ سے ہی مسلمانوں اور مسلم ممالک سے دشمنی رہی ہے۔ اسرائیل کو ہر صورت میں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ جبکہ امریکہ ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں پہلی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔
اب مسلمانوں اور مسلم ممالک کے لئے امن اور نجات کی کوئی راہ نہیں ہے کہ انصاف کا دامن تھا میں اور خدا اور اس کے رسول کے اسوہ حسنہ کی طرف لوٹیں۔آپس کے اختلافات کو دور کریں دشمن کی چالوں کو سمجھیں۔ عوام کی بہتری کاسوچیں ان کو امن و سکون کی زندگی دیں۔ پاکستان میں بھی اسلام اسلام کی رٹ لگانے کی بجائے اسلام کی تعلیمات پر عملی طور پر اقدامات کریں۔ وہ اقدامات جن سے عوام کو سستا اور فوری انصاف ملے اور وہ بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں۔
جب خود غرضی ،عصبیت فرقہ واریت اور ناانصافی کی سیاست ختم ہو گی تب ہی عوام کا خوشحالی کی طرف سفر شروع ہو گا۔ اور اس کے لئے تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کو عقل اور ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ۔تبھی یہ سب ممکن ہے ۔اگر تاریخ سے سبق نہ لیا تو پھر تاریخ کا سبق بار بار دھرایا جاتا رہے گا اور وہی صفحات پلٹ پلٹ کر سامنے آئیں گے کہ جس میں قتل و غارت، نفسا نفسی،ظلم وستم ،حرص و ہوس اور نا انصافی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔