تحریر : پروفیسر رفعت مظہر نئی وفاقی کابینہ نے حلف اُٹھا لیا۔ چند نئے چہروں کے سوا سبھی وزراء اور وزرائے مملکت وہی جو میاں نواز شریف کی کابینہ میں تھے ۔اِس کابینہ کا انتخاب خود میاں صاحب نے کیااور بقول نَومنتخب وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی امور ِمملکت کے سبھی فیصلے بھی وہی کیاکریں گے ،تو پھر فرق کیا پڑا؟۔ وہی نوازلیگ اور وہی مرکز ،پنجاب اور بلوچستان میں اُس کی حکومت۔ وہی میاں نوازشریف اور وہی اُن کی اپنی پارٹی پر مضبوط گرفت ۔فرق نظر آیا تو فقط یہ کہ میاں صاحب پہلے وزیرِاعظم تھے اور اب رَہبر، پہلے مسندِاقتدار کی وجہ سے حدودوقیود تھیں اور اب آزاد میاں نوازشریف جو آنے والے وقتوں میںپ ہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ اِس کی ایک جھلک لوگ یقیناََ اُس وقت دیکھ لیں گے جب میاں صاحب عازمِ لاہور ہوئے۔ لیکن بابر اعوان کی احمقانہ سوچ یہ کہ شریف فیملی کی کہانی ختم ہو چکی۔
بابراعوان نے نئی وفاقی کابینہ کی حلف برداری پر کہا ”جو بچاتھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں”۔ آجکل بابراعوان تحریکِ انصاف کا ترجمان بنا جاوبے جاجملے چست کرتا نظر آتا ہے۔ یہ وہی بابراعوان ہے جس نے ایک ٹاک شو میں کپتان کی موجودگی میں کہا تھا کہ اُنہوں نے بنی گالہ میں حکومت کی ڈیڑھ کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی حال فواد چودھری کا بھی ہے جو آمرمشرف کے تَلوے چاٹتا چاٹتا پیپلزپارٹی میں شامل ہوا اور آجکل تحریکِ انصاف کا ترجمان۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کپتان کی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی ختم کرنے کے دَرپے ہیں۔ سونامیوں نے سوشل میڈیا پر جو طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے ،اُس سے تو کبھی کبھی اکابرینِ تحریکِ انصاف لاتعلقی کا اعلان بھی کر دیتے ہیںلیکن الیکٹرانک میڈیا کے سامنے یہ اصحاب جو بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں ،اُسے سُن کر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی 2018ء کے انتخابات کے بعد کپتان گلی گلی یہ گاتے نظر آئیں گے کہ
آخری گیت محبت کا سنانے کے لیے آئے ہیں جو بچا تھا ، وہ لُٹانے کے لیے آئے ہیں
کپتان کایہی خیال ہے کہ مقتدر قوتیں اُنہیں پسند کرتی ہیں ،عدلیہ سے بھی ”مرضی کے فیصلے” آرہے ہیں اِس لیے وزارتِ عظمیٰ ”آوے ای آوے”۔ اُن کی اِس آرزو کومہمیز دینے والے شیخ رشید ،بابراعوان اور فوادچودھری جیسے بہت لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ”ایں خیال است ومحال است وجنوں”۔کپتان نے اپنے عزم و ہمت کی بجائے ہمیشہ سہاروں کو سیڑھیاں بنا کر منزل تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے اُنہوں نے آمر پرویز مشرف کا جھنڈا اُٹھا کر وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن بُری طرح ناکام ہوئے ۔ پھر اپنے ”سیاسی کزن” کے ذریعے ”لندن پلان” بنایا۔ اُس وقت اُنہوں نے آئی ایس آئی کے سابق چیف اور کچھ دوسرے جرنیلوں کی آشیرباد حاصل کی ۔اِسی لیے وہ ہر روز کنٹینر پر کھڑے ہو کرسونامیوں کو ”امپائر” کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید سنایا کرتے تھے لیکن یہ انگلی کبھی کھڑی نہ ہوئی۔سیاسی کزن کچھ عرصہ بعد ہی تھک کر اپنے دیس سدھارے اور کپتان 126 روز بعد بے نیل ومرام ”نیوے نیوے” ہو کر دھرنا چھوڑ گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امپائر کی انگلی کھڑی ہو جاتی تو کپتان کے ہاتھ کیا آتا ؟۔ فوج اقتدار پر قابض ہو جاتی اور کپتان اصغر خاں کی طرح قصۂ پارینہ بن جاتے۔
اُنہوں نے الیکشن 2013ء میں دھاندلی کا اتنا شور مچایا کہ عدلیہ کو سامنے آنا پڑا تب کپتان کی خواہشوں کا محور ومرکز عدلیہ ٹھہری لیکن فیصلہ حق میں نہ آسکا۔ پھر پاناما ہنگامہ ،جس میں بالآخر وہ کامیاب ہو گئے لیکن وزارتِ عظمیٰ کا خواب تو ابھی ادھورا ہی ہے اور شاید ادھورا ہی رہے ۔وجہ اُس کی یہ کہ فیصلہ بہرحال عوامی ووٹوں سے ہونا ہے، سوشل میڈیا پر نہیں جبکہ جمہور کی آواز ہمیں کپتان کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر نہیں آتی ۔ آجکل تحریکِ انصاف میں غالب اکثریت پیپلزپارٹی سے مفرور ”لوٹوں” کی ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 2013ء کے انتخابات میں بُری ہزیمت کا شکار ہو چکے ہیں۔سیانے کہتے ہیں ”آزمودہ را آزمودن جہل است” لیکن کپتان اُنہی پر انحصار کیے بیٹھے ہیںجن سے قوم بیزار اور ”اوازار”۔ اگر کپتان دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے خیبرپختونخوا پر توجہ دیتے اور لوگوں کو ”نئے پاکستان” کی جھلک دکھاتے تو اُن کی کامیابی اظہرمِن الشمس ہوتی لیکن اب صورتِِ حال یہ ہے کہ سب سے بُری حالت اُن کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی ہے جہاں کرپشن اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، آفتاب شیرپاؤ کی جماعت حکومت سے الگ ہو چکی اور جماعت اسلامی بھی بستر بوریا سمیٹ رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کے اندر بھی اچھی بھلی پھوٹ پڑچکی ہے اور پرویز خٹک کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کی صورت میں تحریکِ انصاف کے کم از کم دَس سے بارہ ارکانِ صوبائی اسمبلی پرویز خٹک کے خلاف ووٹ دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد نہیں بھی آتی تو پھر بھی 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف خیبرپختونخوا میں حکومت بناتی نظر نہیں آتی۔
بلوچستان میں تحریکِ انصاف کی تنظیم ہی نہیں اور نہ کبھی کپتان نے وہاں جانے کی زحمت گوارا کی۔ صوبہ سندھ میں دیہی سندھ پر آج بھی پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط ہے اور شہروں میں ایم کیوایم واضح اکثریت کی حامل۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف اتنے زیادہ ترقیاتی کام کروا چکے ہیں کہ فی الحال پنجابیوں کا ”ڈانواںڈول” ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ایسے میں کپتان کاوزارتِ عظمیٰ کا خواب کیوں کر پورا ہو سکتا ہے۔البتہ اگر افراتفری کا یہی ماحول رہا تو پھر مارشل لاء ہی آسکتا ہے۔ اگر خُڈانخواستہ ایسا ہوجاتا ہے تو پھر حکمرانی فوج کے ہاتھ میں ہوگی ،کپتان کے ہاتھ میں نہیں۔
رہی عدلیہ کی بات تو اُس کی حدودوقیود متعین ہیں۔ یہ بجاکہ پاناما کیسز میںعدلیہ اپنی حدوں سے باہر نکلتی نظر آئی جس کے خلاف شدید رَدِعمل بھی سامنے آیا اور نامی گرامی وکلاء نے بھی تین رُکنی بنچ کے فیصلے پر تنقید کی ۔بیباک عاصمہ جہانگیر نے کہا ”اب تک دو دفعہ سویلین ”گاڈ فادر” نکالے جا چکے ہیں ۔اِس سے پتہ چلتا ہے کہ سویلین گاڈ فادر کتنے لاچار اور مجبور ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا ”کاش آپ مافیاز کے خلاف فیصلے دے سکتے ۔مجھے کسی مافیا کے خلاف ایک فیصلہ ہی دکھا دیں۔آپ تو اب تک لینڈ مافیا کے خلاف بھی فیصلہ نہیں دے سکے۔۔۔۔ نیب کے معاملے پر ایک جج کو تعینات کر دیا گیا ،جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مہذب دنیا میں دکھائیں کہ کسی چھوٹی کورٹ کی مانیٹرنگ اعلیٰ کورٹ کر رہی ہو۔ کوئی بھی فیصلہ آئے تو اپیل لے کر کہاں جائیںگے؟”۔ حقیقت یہی ہے کہ آجکل شفاف تحقیقات اور شفاف ٹرائل پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
آئین میں تو اِس کی کوئی گنجائش نہیں لیکن نیب پر نگران جج مقرر کر دیا گیا ہے جو صرف شریف خاندان کے کیسز کے حوالے سے نیب اور احتساب عدالتوں کی نگرانی کرے گا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ جس پانچ رکنی بنچ نے یہ کیسز نیب کو بھجوائے ہیں ،اُسی کے ایک رُکن جسٹس اعجاز الاحسن کو نگران جج مقرر کر دیا گیا ہے ۔ہر عقیل وفہیم یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ پہلے ہی دے چکی ہو ،اُسی کیس پر اُسی بنچ سے ایک نگران جج بھی مقرر کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر رشید اے رضوی نے کہا ”یہ کیس اُس اصول کی نفی کرتا ہے جس کے تحت نہ صرف انصاف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے”۔ اُنہوں نے کہا ”سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی طرح کی نگرانی ،حتیٰ کہ پولیس کی تحقیقات کی نگرانی بھی نہیں کر سکتی۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کِس طرح احتساب عدالت کی نگرانی کی حد تک جا سکتی ہے”۔ کچھ اِسی قسم کے خیالات کا اظہارسپریم کورٹ بار کے سابق صدور کامران مرتضےٰ اوربیرسٹر علی ظفر نے بھی کیا ۔ اُدھر شریف فیملی اِس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی اپیل اور فُل کورٹ کی استدعا کرنے جا رہی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو فُل کورٹ کے ذریعے اِس متنازع فیصلے پر نظرِثانی کرنی ہوگی تاکہ عدل ہوتا ہوا نظر آئے۔