انصاف تک رسائی دشوار ہوگئی: سسٹم جل رہا ہے، توقعات پوری نہیں ہو رہیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

Justice Manzoor Ahmad

Justice Manzoor Ahmad

لاہور (جیوڈیسک) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ضروت ہے۔

عدلیہ، انتظامیہ اور بار میں ٹکرائو کا تاثر زائل ہونا چاہئے کیونکہ جب تک یہ تینوں ادارے ملکر کام نہیں کرتے سائلین کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، عدلیہ اور بارکے قیام کا بنیادی مقصد غریب عوام کو انصاف کی فراہمی ہے مگر بدقسمتی سے معاشرے میں انصاف تک رسائی دشوار ہوتی جارہی ہے۔

جس کی بنیادی وجہ عدالتی اداروں کا آپس میں عدم اعتماد اور رابطے کی کمی ہے۔ مقدمات کو رواں سال نمٹانے کے لئے ماتحت عدالتوں کو احکامات جاری کردئیے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں عدالتی و انتظامی افسروں سے ملاقات اور وکلا کے وفود سے خطاب میں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

جج صاحبان انتظامی افسروں اور وکلاء کا احترام کریں اور دوستانہ ماحول میں عوام کو انصاف فراہم کریں تاکہ عدالتی نظام پر روز بروز بڑھتی ہوئی تنقید ختم ہوسکے۔ جوڈیشل افسر قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلے کریں۔ کریمنل جسٹس کوآرڈی نیشن کمیٹی کو فعال بنانے کی ضروت ہے تاکہ عدلیہ اور انتظامی امور میں پائی جانیوالی خامیوں کو دور کیا جاسکے۔

وکلاء وفود سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشنز عدلیہ سے تعاون کریں اور چھوٹے چھوٹے ایشوز پر ہڑتال کا کلچر اب ختم ہونا چاہئے۔ زیر التوا کیسز کو نمٹانے کیلئے وکلا سے مشاورت کر کے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہ ملے وہاں بے چینی بڑھتی ہے جو کہ آگے چل کر جرائم کا سبب بن جاتی ہے۔ وکلا کے مطالبات پر چیف جسٹس نے ستمبر تک ملتان میں ججز کی تعداد پوری کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔

آن لائن کے مطابق جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ سسٹم جل رہا ہے‘ عوام کی توقعات سسٹم سے پوری نہیں ہو رہیں‘ مقدمات کے فیصلے نہیں ہو رہے‘ بعض مقدمات 20‘ بیس سال پرانے ہو چکے ہیں‘ مجھے وکلاء پر اعتماد ہے، مجھے مایوس نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ یوحنا آباد کا واقعہ بہت تکلیف دہ ہے جلنے والا مسلمان ہو یا مسیحی انسان ہے ایسے واقعات سب کیلئے تکلیف دہ ہیں ایسے واقعات سسٹم کی خرابی کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ نظام عدل کے اصل اسٹیک ہولڈر عوام ہیں۔

میں وکلا کے تمام مطالبات مانتا ہوں مگر میرا بھی وکلاء سے ایک مطالبہ ہے کہ وکلا بھی عوام کا خیال کریں اور عوام کا سوچیں۔ معاملات اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔ وکیل طاقت کی زبان نہیں سمجھتا لیکن دلیل کی زبان ضرور سمجھتا ہے اور سنتا ہے۔

ماضی میں سزائے موت ملنے پر وکیل بھی سر جھکاتا تھا اور جس کو سزا ملتی تھی وہ بھی مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ میرے دور میں کوئی جج کسی وکیل کی تذلیل نہیں کریگا۔ میں آج جس جگہ پر کھڑا کام کر رہا ہوں یہ میرے وکیل ہونے کی وجہ سے ہے۔ وکلا اس نظام کو بچائیں گے عوام کے اعتماد کو بحال کرینگے۔