تحریر : کوثر ناز عدل کے لغوی معنی ہیں، سیدھا کرنا، برابر کرنا، توازن و تناسب قائم کرنا۔جبکہ عدل کا اصطلاحی مفہوم ہے کہ جس کا جو حق کسی پر عائد ہوتا ہے اسے ادا کر دیا جائے، عدل کو واضح دیکھا جائے تو سیدھا مطلب انصاف کرنے کے ہی ہوتے ہیں۔ اسلام عدل وانصاف کا مذہب ہے، اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہتا ہے چاہے مسلم ہو یاغیر مسلم، مرد ہو یا عورت، اپنا ہو یا پرایا، حاکم ہو یا محکوم، ہرحال میں انصاف کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے، “انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہونگے جواپنے اہل وعیال اور حکمرانی میں انصاف کرتے ہوں” ایک اور جگہ روایت ہے کہ اور انصاف کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
عدل کے ایک اور معنی برابر کرنے کے ہیں ۔اسے میزان یا ترازو کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہوتے ہیں۔ ذراسی بھی اونچ نیچ عدل اور انصاف کے منافی تصورکی جاتی ہے۔ روزِ قیامت حشر کاجو میدان وقوع پزیر ہو گا، وہاں بھی اللہ تعالیٰ اپنی میزان نصب کرے گا، جس میں بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا کیوں کہ وہ سب سے بڑا عادل اور سچا انصاف کرنے والا ہے، ارشاد فرمایا، ’’ اُس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس )لوٹیں گے تاکہ اُنہیں اُن کے اعمال دکھا دیے جائیں ،پس جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بُرائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا۔‘‘(سورۃ الزلزال، آیات 6ت) حقیقت میں اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقا کے لئے اُس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے اسلام اور تمام انبیاء رسول کی سیرت و کردار سے ہمیں عدل و انصاف ہی کا سبق ملتا ہے کہ اسلام مساوات کا نہیں عدل و انصاف کا دین ہے۔
ہم اگر حضور پاک صلی اللہ و آلہ وسلم کی زندگی کا جائزہ لیں تو وہ عدل کے بے تحاشہ قصوں سے پـرمبنی ہے انکے دشمن بھی انکے انصاف کی گواہی دیتے تھے اور اس سے بڑی شاید ہی کوئی مثال ہو کہ ایک دفعہ خاندان قریش کی عورت نے چوری کی اور قریش کی عزت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے۔ حضرت اُسامہ بن زیدؓ رسول اکرمﷺ کے قریب تھے۔ لوگوں نے ان سے سفارش کیلئے کہا۔ انہوں نے آپﷺ سے معافی کی درخواست کی۔ آپﷺ نے سختی سے فرمایا کہ بنی اسرائیل اس لیے تباہ ہوئے کہ وہ غرباء پر حد جاری کرتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے۔[بخاری] آپﷺ نے فرمایا بخدا اگر فاطمہؓ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتیں تو میں ان پر بھی حد جاری کر دیتا۔ آپﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا‘‘۔[مسلم] ’’حضور اکرمﷺ ہمیشہ خود بھی جواب دہی کیلئے آمادہ رہتے اگر آپﷺ کے کسی سلوک سے نادانستہ طور پر کسی شخص کو ایذا پہنچتی تو آپﷺ اسے بدلہ لینے کی فراخ دلانہ پیش کش کرتے۔
Muhammad PBUH
ایک اور بار کا ذکر ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ ’’خیبر کی فتح کے بعد مفتوحہ زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ یہود نے اللہ کے رسولﷺ سے درخواست کی کہ وہ چونکہ زمین پر بہتر کاشت کرسکتے ہیں لہٰذا زمینیں انکے پاس ہی رہنے دی جائیں اور وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرینگے۔ آپﷺ نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ بٹائی کا وقت آتا تو آپﷺ حضرت رواحہؓ کو بھیجتے جو فصل کے دو حصے کرتے اور یہود سے کہتے کہ اس میں سے جو حصہ چاہے لے لو۔ یہود اس عدل پر متحیر ہوکر کہتے کہ زمین اور آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں‘‘۔ [بلاذری [ عدل ایک الہی صفت ہے ۔جو تمام الہی صفات کے درمیان اپنی الگ خصوصیت کی وجہ سے اصول دین میں شامل ہے ۔ یعنی دین مبین اسلام میں توحید کے بعد عدل کو قرار دینا خود اس کی اہمیت کی گواہی ہے۔
قرآن مجید نے اس صفت کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے ۔ یہاں تک اللہ نے اپنی مخلوق کی ھدایت کے لیے بھیجے گئے انبیاء کا مقصدبعثت ہی عدل و عدالت کے قیام کو قرار دیا ۔سورہ الحدید کی آیت نمبر 24میں ارشاد ہے۔”ہم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو وا ضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ ساتھ کتاب اور (انصاف ) کی ترازو نازل کی تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
عام طور پر عدل اور انصاف کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے مگر انصاف اس صورت میں ہوتا ہے جب معاملہ دو کے مابین ہو کیونکہ انصاف نصف سے ہے اور نصفوں کی تقسیم ہمیشہ دو پر ہوتی ہے اور اگر معاملہ دو سے ذیادہ کا ہو تو پھر انصاف نہیں مساوات کا معاملہ ہوتا ہے اور اس کا مطلب کسی شے کو برابر تقسیم کرنا یا سب چیزوں یا افراد کو ایک برابر سمجھنا ، عام طور پرانصاف اور مساوات کو عدل کے معنی میں سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر انصاف اور مساوات عدل پرمبنی ہو کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انصاف اور مساوات سے کام تو لیا گیا ہو مگر وہ ظلم ہی ہو۔
آج اگر پوری دنیا میں عدل و انصاف کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو عملاً ہر طرف قانون معطل نظر آتا ہے، جرائم میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے، آج ہر ملک میں قانون سازی کے لئے اسمبلیاں قائم ہیں، اُن پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لئے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل جاتی ہے، اور پھر یہ پورے ’’ملک کا دل و دماغ‘‘، ’’ملک کی ضروریات‘‘ اور ’’لوگوں کے جذبات و احساسات‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ قانون بناتے ہیں، اور پھر اس قانون کے نفاذ کے لئے حکومت کی لاتعداد مشینری حرکت میں آجاتی ہے، اس سلسلے میں بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے کار آتی ہیں، لیکن چلی رسوم کی دنیا سے ذرا نظر کو اونچا کرکے دیکھا جائے اور جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکہ دار مان لیا گیا ہے تھوڑی دیر کے لئے ان کی تقلید سے نکل کر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ
نگاہِ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے مِری نظروں میں پھیکا رنگِ محفل ہوتا جاتا ہے
اس میں شک نہیں کہ ہرشخص خاص طورسے اگروہ اقتدارکی کرسی پربیٹھاہوعدل کامدعی ہے لیکن ان میں سے سچاکون ہے اسکامعیارکیاہے ؟کون عدالت پسندی کادعوی کرسکتاہے کہ جس کی بات حجت ہو؟عدل کاسرچشمہ کہاں سے حاصل ہوتاہے اس کی نمودانسان کے باطن سے ہے یااس کے وجود کے باہر سے؟ آج پاکستان کی عوام اور پاکستانی سماج دونوں عدل نہ ہونے کی بنا پر زوال کا شکار ہیں کیونکہ ہم وہ ہیں جو عید میلادالنبی پر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ حضور پاک ﷺ کی سیرت و عدل و انصاف کے قصے سن رہے ہوتے ہیں مگر محفل سے اٹھنے کے بعد ہم انہیں اپنے ذہن سے یکسر فراموش کر دیتے ہیں اتنا ہی نہیں عام حالات میں روز مرہ کے کاموں میں بھی بھید بھاؤ سے کام لیتے ہوئے حضور پاک ﷺ کی فرمان کی نفی اپنے اپنے اعمال سے کر رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں زمانہ بگڑ گیا ارے زمانہ تو آپ کے بگڑنے سے بگڑ گیا اگر آپ سدھر جائیں تو زمانہ بھی سدھر جائے کہ
کوئی تو ہو جو ان رسموں سے اعلان بغاوت کرئے کہیں تو اندھیرے میں کوئی چراغ جلنا چاہیئے
ہم اپنے اعلی حکمران و عدلیہ کے عادلوں سےمودبانہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ تقریریں کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے حکومت کی رہنمائی بھی کریں اور اس پر عدالتی دباؤ بھی ڈالیں کیونکہ عدل ضرورت ہے معاشرے کی تقریروں سے نہ کبھی عدل قائم ہو سکتا ہے نہ ہوگا کیونکہ ہم مردہ احساس سے پُر انسان ہیں۔
Supreme Court of Pakistan
سو کوششیں آپکو ہی کرنی ہیں غریب عوام آکر آپکے دروازے ہی بجاتی ہے اور آپ امیروں کے تلوے چاٹتے غریبوں کا حق مار لیتے ہیں لیکن ہم آپکو بتانا چاہتے ہیں کہ نہ تو عدل کے معنی اتنے لایعنی ہیں نہ ہی یہ اتنی ازاراں شے ہے کہ معاشرے میں اسکی ضرورت کو یکسر فراموش کر دیا جائے کیونکہ یہاں انسان اور جانوروں میں تفریق کرنا لازم و ملزوم ہے سوفوری اور سستے انصاف کی فراہمی آئینی تقاضہ ہے امیروں کو انصاف پیسے کی بنیاد پر دینے کے بجائے عام انسانوں جیسا سلوک کیا جائے تو کیسے نہ امراء کو سہولت دینے کے شوق میں عام آدمی کو ظلم کی چکی میں پیس دیں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو کیا انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
عالم اسلام میں عدل کی عدم دستیابی فکر وافسوس کا مقام ہے مفکروں کو پریشانی لاحق ہوجانی چاہیئے کہ اسلام کے اصوالوں کو یہ معاشرہ یہاں کی انصاف کے علمبردار کس طرح سے پامال کر رہے ہیں جیسے کہ سبھی کو علم ہے کہ اللہ برابری کا حکم دیتا ہے اور ہمارے اسلامی معاشرے میں اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں انصاف نہ ہونے کے برابر ہے عالم اسلام کے مفکروں کوتو دنیاوی عدالتوں کی ان کے حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی چاہیئے کہ جو اسلام کا لازمی جز ہے عدل یہ اسی کا گلا گھونٹ کر انصاف پیسوں کے عوض بیچ رہے ہیں وہ پنجابی میں شعر ہے کہ
فصل کریں تے بخشے جاؤن میں جئے منہ کالے عدل کریں تے تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے
عدل و انصااف قائم ہو تو ہم بھی دیکھیں کی کون مائی کا لال ایسا ہے جو انصاف کی فراہم میں روکاوٹ ڈالے کون سیاستدان ایسا ہے جو غریب عوام کا حق کھا جائے لیکن شروعات تو نچلے طبقے سے ہی کرنی ہوگی انصاف پسند تو ہمیں ہوگا کیونکہ سفر نیچے سے اوپر کی سمت طے کیا جاتا کبھی الٹے راستے نہیں طے کیئے جاتے ہیں۔
عدل و انصاف کا قائم کرنا اور اس پر قائم رکھنا صرف حکومت اور عدالت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرےعدل وہ صف ہے جسے برتنا بہت مشکل ہے ،بالخصوص اس وقت جبکہ ذاتی مفادات سامنے آرہے ہوں، رشتہ داروں کے خلاف فیصلہ جارہا ہو ایسے وقت میں اگرایک شخص کے اندر خوف الہى نہ ہوتووہ بہرصورت جانبداری برت سکتا ہے ،تب ہی توانصاف کرنے والے محبوب ربانی بنتے ہیں،اورمختلف اعزازات وانعامات کے حقدار ٹھہر تے ہیں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا حاکم و رعایا سب پر یک ساں ہیں۔
Quran
حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ترجمہ ’’ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے اس کی نصیحت تمہیں اﷲ کر رہا ہے، بے شک اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء) ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ دین مقدس اسلام عدل وانصاف کا دین ہے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے یعنی اسلام ہی کی بنیاد پر یہ ملک قائم ہو ا ہے لیکن افسوس صد افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اب اس ملک میں اسلام صرف اسکے نام کے ساتھ نظر آتا ہے اس ملک میں دیگر مختلف بحرانوں کے ساتھ عدل وانصاف کا بھی بری طرح سے قحط پڑا ہوا ہے ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا پانے کے لیئے تو نہیں کیا تھا بلکہ ہم تو ایسی تجربہ گاہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصول آزما سکیں مگر ہماری قوم تو انگریزوں کو ہندوؤں کے تعاقب میں اندھی رہی ہے اور دشمانان اسلام نے بھی کوئی کسر ہماری قوم کے بگاڑ میں اٹھا نہیں رکھی ہےہمارے خیال میں یہ کام جاپان کے ہیروشیما پر داغے گئے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہاں پر اس ایٹم بم نے صدیوں تک لوگوں کو جسمانی طور پر مفلوج اور اپاہج کردیا لیکن یہاں پرصدیوں تک آنے والی ہماری نسلوں کو تعلیمی،ترقی اور فکری طور پر مفلوج اور اپاہج کرنے کا سامان فراہم کیا گیا ہے وہ چیز تو کہیں نظر نہیں آتی جو اس شعر سے مشابہت رکھتی ہو کہ
دمِ تقرر تھی مسلم کی صداقت بے باک عدل اسکا تھا قومی ، موعث مراعات سے پاک
ہمیں ہر سطح پر انصاف کا ساتھ دنیا ہو گا ۔ وہ چاہے گھر ہو ،ادارہ ہو ملک ہو یا معاشرہ اور چاہے ہمارے سامنے کوئی اپنا ہو یاغیر، سب کے ساتھ انصاف کرنا اور ہر حال میں انصاف کی قدر کو تھام کے رکھنا، اسی طرح ظالم قوموں کو انصاف کی دعوت دنیا اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو نمایاں کرکے بجائے بدلہ لینے، خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے کے سب کو انصاف کی حمایت میں کھڑے کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہی ہمارے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا اصل حل ہے۔ ہماری بات پر یقین نہ آئے تو پھر حضور ؐکی سیرت پڑھ لیجیے اور یا یہ فرامین الہی۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والوں! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ ﴿اس میں﴾ تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے یا ﴿شہادت سے﴾ بچنا چاہو گے تو ﴿جان رکھو﴾ خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے‘‘۔ ﴿نسائ :۵۳۱﴾ انسان طرح طرح کی شش و پنج میں اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے مگر کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ کہیں یہ ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ تو نہیں ؟؟؟
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
کہیں ایسا تو نہیں ہم نے دین و مذ ہب کو بھول کرخود ہی اپنے لیے مسائل و مشکلات کا انبار کھڑا کر رکھا ہے کیا کبھی ہم نے اپنے آپ کو خود احتسابی کے آئینہ کے سا منے کھڑا کیا ہے ؟؟؟ آخرہم ہر طرف سے زیرِ اعتاب کیوں ہیں ؟؟؟آ ج کامیابی وکا مرانی ہمارا مقدر کیوں نہیں ؟؟؟آ ج ہماری منزل ہم سے کیوں روٹھ گئی ہے ؟؟؟۔ آ ج ہم عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے بے بسی کا بت کیوں بنے ہوئے ہیں؟؟؟وہ کون سے سنہری اصول ہیں جن کو ہم پسِ پشت ڈال کرزمانے میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ہمارے آ با و اجدادکن اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معزز و کا میا ب ہو ئے وہ عدل و انصاف اور اسلامی مساوات پر اس قدر سختی سے کار بند تھے کہ اقوا م عالم ان کی کا میا بی پر رشک کر تی ہےِ۔
جب قرآن و حدیث ،اسلامی قانون او رشریعت محمدیﷺ نا فذ تھی تو راعی اور رعا یاسب پر احساس غالب تھا کہ ہم سب کو رب العا لمین احکم الحا کمین جیسی عظیم طاقت و قوت کے سا منے پیش ہو نا ہے ۔ اسی جذبے ،احساسِ ذمہ داری،اور قانونِ مسا وات نے سب کو ایک ہی صف میں لا کر کھڑ اکر دیا تھااور ثا بت کیا تھاکہ قانون کی نگاہ کو ئی ممتاز نہیں ۔سب برابر اور مسا وی ہیں۔ کا میا ب زند گی گزارنے کے لیے ان اصو لو ں کو اپنا نا ہو گا بحثیت قوم بلند اور ممتاز مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان سنہری اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہو گا ۔اگر سا مراجی طاقتوں کے سا منے سینہ تان کر کھڑے ہو نا ہے ۔تو پھر مساواتِ محمدی ﷺاور قرآن و حد یث کے بتا ئے ہو ئے عدل وانصاف کا قانون اپنے اوپر نافذ کر نا ہو گا ورنہ ہم یہ ہی کہہ سکیں گے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ہم خار ہوئے طارق قرآں ہو کر
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عدل و انصاف کا پیکر بنائے اور دین عدل پر ثابت قدم رکھے۔ آمین یارب العالم۔