قومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین جناب جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کے عہدے کی ذمہ داریان 11 اکتوبر 2017 کو سنبھالیں جن کا حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخاب کیا کیونکہ جناب جسٹس جاوید اقبال نے داغ ماضی انتہائی ایماندار قابل میرٹ اور صرف اور صرف قانون کے مطابق کام کرنے کی شہرت اور عزاز رکھتے ہیں ان کی دیانتداری اچھی شہرت پیشہ ورانہ صلاحتیوں ایمانداری اور قابلیت کی گواہی معاشرے کے تمام طبقوں کے افراد دیتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اور قوم کی لوٹی گئی رقم بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کی ذمہ داری کا مینڈیٹ لیئے1999 میں قائم کیا گیا نیب نے یہ ذمہ داری کیس طرح پوری کی اس کا اندازہ نیب کی شاندار کارکردگی سے لگایا جاسکتا ہے جس میں قیام سے اب تک قوم کے تقریباً3سو ارب روپے بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے نہ صرف قومی خزانے میں جمع کرائے بلکہ نیب کی آپریشنل رقم اس پر صرف چندارب روپے خرچ ہوئی جو کہ کسی بھی بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے ادارے کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم سے کم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے تو کم نہ ہوگا مزید برآں نیب نے یہ تمام رقم قومی خزانے میں جمع کرائی اور اس میں نیب کے افسران کو کوئی حصہ نہیں ملتا بلکہ نیب کے افسران اپنا کام قومی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔
31مارچ 2018ءکو شائع ہونے والی قومی احتساب بیورو کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2017ءکے اجراءکے موقع جناب ممنون حسین صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے قوم کویہ پیغام دیا کہ قومی امانت کی حیثیت سے ملکی وسائل قومی ضروریات کی تکمیل اور قومی کی فلاح وبہوبودپر خرچ ہونے چاہیں ۔ ہمارے بزرگوں اور قائدین نے نجی اور سرکاری ہرسطح پر اس کی شاندارمثالیں قائم کی ہیں۔
قومی زندگی سے مختلف موقع پر وطن عزیز میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہمارے ہاں مسائل پیداہوئے اور غیرذمہ دارعناصر قوم کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ۔یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے کیونکہ اس سے عوام میں عدم اطمینان پید اہوتا ہے ۔اس لئے ریاست اور اس کے تمام اداروں کو قومی وسائل کی حفاظت اور ان کے درست استعمال کے بارے میں حساس ہونا چاہئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے پوری قوم یک سو ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بدعنوانی کے سدباب کی کوششیں معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کا ذریعہ نہ بنیں اور انصاف کے تقاضے ہر صورت میں پورے کئے جائیں ۔مجھے یقین ہے کہ قومی ادارے اس سلسلے میں قوم کی امنگوں پر پورااتریں گے ۔
اردو ادب کے مشہور مصنف کوثر صدیقی صاحب اپنی کتاب ”آگ“ میں لکھتے ہیں کہ ”میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ میرے گھر کے قریب ایک صابن بنانے کے کارخانے میں منوں صابن روز تیار ہو تا تھا ۔میں سوچتا تھا انتا صابن نجانے کتنا میل ہے جسے صاف کرنے کےلئے دن رات صابن تیار ہوتاہے مگر میل ہے کہ ختم ہونے کا ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔میل کہاں سے پیداہوتا ہے اس کے منبع پر کیوں روک نہیں لگادی جاتی ۔ایسے بہت سے سوال میر ے ذہین میں ابھرتے ۔بڑاہونے پر مجھے معلوم ہوا کہ تمام دنیا میں رات دن صابن تیار ہورہے ۔ میں سمجھ گیا کہ میل بھی ہر وقت تیار ہوگا ۔یہ میل بھی عجیب حکمران طاقت ہے جو اپنے وجود ، بقا اور استحکام کے لئے ہر وقت بر سرپیکاررہتاہے ۔ میں سوچتا تھا کہ یہ میل دنیا میں کب اور کس طر ح معرض وجو د میں آیا ۔ پھر جیسے کسی نے میر ے کان میں آہستہ سے کہہ دیا میل انسان کے ساتھ ہی فطرت کا ایک جزولازم بن کروجود میں آیا ۔جہاں انسان ہے وہا ں میل ہے ۔جہاں میل وہاں انسان ہے ۔
انسان کے ثبات کے ساتھ ہی میل کا ثبات بھی جاری ہے ۔ انسان اور میل کے ثبات کی تاریخ میں صابن کے نسخے لئے ہوئے بہت سے حکیم نظر آئے ۔(ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر دنیامیں تشریف لائے) ”حضرت ابراہیم ؑ، حضرت نوح ؑ،حضرت موسیٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت محمد ﷺ،“سب میل صاف کرنے کے صابن کے نسخے لے آئے مگر میل صفحہ ہستی سے ختم ہو پایا ۔ یہ میل مجھے شیطان کا ہی ایک روپ نظر آیا جو جسم سے لیکر روح تک سب کو گند ہ کرتا رہتا ہے۔ ہر صاف انسان کی طرح مجھے بھی میل سے سخت نفرت ہے مگر میں نے دیکھا میں اپنا دامن ابھی دھویا تھا کہ پھر گندہ ہوگیا۔“
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم کو یک سو ”صابن “ بنا کر قومی احتساب بیورو(نیب )کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ پاکستان میں موجود”گندا“ میل کا صفایا ہو سکے۔